Search By Category
حضرت مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ
قائد اہلسنّت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ ایک عالم باعمل، مجاہد تحریک ختم نبوت اور پاکستان کے اہم ترین سیاست دان تھے۔ ان کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ اپنے زمانے کے شہرہ آفاق روحانی بزرگ اور عالمی مبلغ اسلام تھے جن کے ہاتھ پر بے شمار غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ فتنہ قادیانیت کے خلاف ان کی گرانقدر خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ایک سحر بیان خطیب، کمال ذکی، حاضر جواب اور فی البدیہہ گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ زبردست خوش الحان قاری قرآن بھی تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے پایاں محبت و عقیدت ان کی رگ رگ میں جاگزیں تھی۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں حضرت نورانی میاںؒ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انھوں نے بے شمار قادیانی مبلغین سے مناظرے کیے اور انھیں ہمیشہ شکست فاش دی۔ آپ نے بیرون ممالک میں قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا مسلسل تعاقب کیا۔ انھوں نے آئین پاکستان میں مسلمان کی تعریف شامل کروائی۔ 30 جون 1974ء کو آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے کے لیے قومی اسمبلی میں تاریخی قرارداد پیش کی۔ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو اپنی جماعت کے عقائد کے بارے میں صفائی اور موقف پیش کرنے کا مکمل اور آزادانہ موقع دیا گیا۔ 13 دن تک اس پر جرح ہوئی۔ بعدازاں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ مولانا نورانی ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مجھے بخشی اور مجھے یقین کامل ہے کہ بارگاہ خاتم النبیینصلی اللہ علیہ وسلم میں میرا یہ عمل سب سے بڑا وسیلہ شفاعت و نجات ہوگا۔‘‘
حضرت مولانا نورانیؒ ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’1974ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانی خلیفہ مرزا ناصر قادیانی جماعت کی طرف سے محضر نامہ پڑھنے کے لیے جب قومی اسمبلی میں آیا تو خدا کی قدرت اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز دیکھنے میں آیا کہ جس وقت اس نے محضر نامہ پڑھنا شروع کیا تو اسمبلی کے اس بند ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں اوپر کے چھوٹے پنکھے سے ایک پرندے کا پر جو غلاظت سے بھرا ہوا تھا، سیدھا اس محضر نامے پر آ کر گرا۔ جس سے مرزا ناصر ایک دم چونکا اور گھبرا کر کہا “I am disturbed” مرزا ناصر کی بدحواسی، ذلت آمیز پریشانی اور اس عجیب و غریب واقعہ پر اراکین اسمبلی ششدر رہ گئے کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی غلاظت اوپر چھت سے اس طریقہ سے گری ہو۔‘‘
ایک دفعہ آگرہ کے اکبر عادل صاحب سی۔ ایس۔ پی ریٹائرڈ سیکرٹری وزارت صنعت و حرفت حکومت پاکستان نے پروفیسر شاہ فرید الحق صاحب سے ذکر کیا کہ ’’آپ کے صدر جمعیت، عجیب آدمی ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی اپنی پیش کردہ قرارداد سے دو لفظوں کے اخراج پر انھیں بہت بھاری رقم مل رہی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی۔ مفصل واقعہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں تحریک ختم نبوت 1974ء کے دوران میرے مکان پر علامہ شاہ احمد نورانی کی دعوت تھی۔ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے کہ قادیانی لاہوری گروپ سے تعلق رکھنے والے بعض سرکردہ لوگ وہاں آئے اور پوچھا کہ کیا آپ کے ہاں مولانا نورانی تشریف فرما ہیں، ہم ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو اندر لے گیا اور حضرت نورانی صاحب سے کہا کہ یہ لوگ آپ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کیا بات ہے؟ ان لوگوں میں تین چار اعلیٰ سرکاری افسر بھی تھے۔ ایک صاحب نے کہا جناب آپ نے قومی اسمبلی میں اپنی پیش کردہ قرارداد میں لاہوری گروپ کو بھی غیر مسلم قرار دیا ہے حالانکہ ہم مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ مجدد مانتے ہیں۔ لہٰذا آپ کی قرارداد میں ہمارا ذکر درست نہیں ہے۔ آپ یوں کریں کہ اپنی قرارداد سے ہمارا نام نکال دیں، ہم اس کے عوض آپ کو پچاس لاکھ روپے پیش کرتے ہیں۔ (یاد رہے 1974ء میں پچاس لاکھ روپے کروڑوں بلکہ اربوں کے برابر تھے) اس پر علامہ نورانی طیش میں آ گئے اور بلند آواز میں فرمایا، ’’اوکم نصیبو! ہمارا سودا تو دربار مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم میں ہو چکا ہے۔ ہم آپ کی پیشکش جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا جوتا اس پیش کش سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ مرزا قادیانی جھوٹا مدعی نبوت ہے اور جو اسے مجدد یا مسلمان مانتا ہے، وہ بھی کافر ہے اور میری قرارداد سے کوئی لفظ حذف نہیں ہوگا آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں ورنہ آپ کے لیے اچھا نہ ہوگا۔‘‘ اس پر وہ لوگ چلے گئے تو علامہ نورانی ؒ نے فرمایا کہ بڑی بڑی اعلیٰ حکومتی شخصیات سفارش کرتی ہیں کہ صاحب! ان لوگوں کا آپ کیوں ذکر لے آئے ہیں۔ یہ تو نبی نہیں مانتے لیکن الحمدللہ! اللہ کریم نے استقامت عطا فرمائی۔ یہ پیسے آنی جانی چیز ہے۔ اصل دولت ایمان کی دولت ہے جو سرمایۂ آخرت ہے۔‘‘
کسی نے کیا خوب کہا تھا: ’’مولانا نورانی نہ جھکتا ہے نہ بکتا ہے۔‘‘
حضرت نورانی میاںؒ نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا:
’’ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان ایک متفقہ اور اجتماعی عقیدہ ہے اور سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ختم نبوت کا منکر، کافر اور مرتد ہے۔ اس امت میں فتنۂ ارتداد اور فتنہ انکار ختم نبوت کو بیخ و بن سے اکھاڑنے والے سب سے پہلے اور سچے عاشق رسول، حضور ختمی مرتبتصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، انھوں نے ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر فتنۂ ارتداد، فتنہ انکار ختم نبوت کی سرکوبی کی، مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں ہزاروں صحابہ کرام شریک ہوئے، جن میں سینکڑوں حفاظ قرآن بھی تھے اور بالآخر مسیلمہ کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ برصغیر میں متنبی قادیان کے خلاف بھی علما حق نے کفر و ارتداد کے فتاویٰ جاری کیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ، اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ اور دیگر تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے مرزا قادیانی کی تکفیر کی۔ علما حق نے مناظرے اور مباہلے کے چیلنج دیے اور قبول کیے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کا سواد اعظم اس فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا۔‘‘
حضرت نورانی میاںؒ نے قادیانیوں کے بارے میں نہایت اہم انکشاف کرتے ہوئے فرمایا:
’’قادیانی حج کے لیے نہیں جاتے لیکن جب سے پاکستان بنا ہے، یہ لوگ وہاں جانے لگے ہیں کیونکہ ان کے پاسپورٹ میں قادیانی نہیں لکھا ہوتا، اس لیے سعودی حکومت انھیں نہیں روکتی۔ وہاں پہنچ کر یہ لوگ سازشیں کرتے ہیں اور یہاں یہ کہتے ہیں کہ ہم تبلیغ کی غرض سے گئے تھے اور چونکہ وہاں ان کو تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے وہ وہاں صرف جاسوسی کرتے ہیں اور یہودیوں کو وہاں کے حالات و واقعات سے آگاہ کرتے ہیں۔
چونکہ میرے والد گرامی کا موضوع ردقادیانیت و مرزائیت تھا۔ ایک حوالے سے تو یہ موضوع مجھے ورثہ میں ملا اور پھر اس موضوع کا مطالعہ انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے۔ انسان سوتے سے جاگتا ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ اے مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کے غلام، اٹھ اور جاگ، تیرے ہوتے ہوئے تیرے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کیسے جرأت و جسارت کے ساتھ دندنا رہے ہیں۔ یہ قادیانی سیاہ بخت، اللہ کے پیارے محبوبصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ختم کر کے ہندوستان کے جھوٹے نبی کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ہر صاحب ایمان کا فرض ہے کہ وہ اٹھ کھڑا ہو اور میدان میں کود پڑے۔ اس منحوس فتنہ کی سرکوبی ہر بڑے فریضے سے اہم فریضہ ہے۔ یہ ایسا زہر ہے جو گڑ کی شکل میں کھلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں بہت ضروری ہے کہ ہر مسلمان فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے موثر اقدام اٹھائے۔‘‘
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چناب نگر (ربوہ) میں ختم نبوت کانفرنس سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ نے فرمایا:
’’ایمان ایک ایسی قوت ہے جس کی بے شمار برکات ہیں اور تحفظ ختم نبوت خالصتاً ایمانیات کا مسئلہ ہے جس کے لیے ہم اپنے خون کا آخری قطرہ بھی قربان کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔ قادیانی حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز ہو کر مالی اور سیاسی فوائد حاصل کر رہے ہیں حالانکہ وہ اقلیت میں ہیں۔ وہ پاکستان میں اپنی وہی پوزیشن بنانا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں نے بنا لی ہے۔ اگر یہ فتنہ اس طرح پروان چڑھتا رہا تو آئندہ اس ملک پر ان کا قبضہ ہوگا اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت نہ کر سکے گا۔ مرزائیت، یہودیت کی گود میں پروان چڑھ رہی ہے اور پاکستان میں تل ابیب کا ایجنٹ ربوہ ہے۔ اس کی معرفت جو چاہتے ہیں، کرواتے ہیں۔ مذہب کا تو ان لوگوں نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانیت ایک بہت بڑی خطرناک سیاسی تحریک ہے اور صیہونیت کی ذیلی تنظیم ہے جو مسلمانوں کے اندر رہ کر مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ ہر مسلمان کو ان کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔‘‘
آسماں تری لحد پہ شبنم افشانی کرے
Recent Comments