Language:

حضرت مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ

            حضرت مولانا تاج محمودؒ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کے قافلۂ احرار کے جانباز سپاہی، تحریک ختم نبوت کے مدبر جرنیل اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی قائد و راہنما تھے۔ جامع مسجد ریلوے کالونی فیصل آباد میں ساری زندگی گزار دی۔ تحریک ختم نبوت 1953ء اور 1974ء میں بھرپور قائدانہ حصہ لیا۔ آخری دم تک تحفظ ختم نبوت کے لیے فتنۂ قادیانیت سے برسرِپیکار رہے۔ آپ زبان و قلم دونوں کے دھنی اور میدان تقریر و تحریر کے یکساں شہسوار تھے۔ وہ بڑی خوبصورت، علمی، انکشافاتی اور شعلہ بار تقریرکرتے جس سے بزدل دشمنوں کے دل دہل جاتے۔ ایک دفعہ آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ دل کے مریض ہیں، آپ تقریر میں اس قدر جذباتی نہ ہوا کریں۔ اس طرح آپ کو دل کی بیماری کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ آپ مسکرا کر فرما دیتے: ’’چھوڑو جی، ایک دل ہی تو ہے ہم فقیروں کے پاس، یہ بھی اگر اپنے آقا و مولا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر نثار نہ کیا تو کیا کمایا۔ ہونے دو جو ہوتا ہے، ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ مرتے دم تک جہاد جاری رکھیں گے اور پھر ایک دنیا گواہ ہے کہ یہ صرف زبان تک محدود نہیں، بلکہ آپ نے کر کے دکھایا۔

q          تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران میں جب مولانا تاج محمودؒ جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں شمع رسالت کے پروانوں کے ایک جم غفیر سے قادیانی گروہ اور اس کے کفریہ عقائد و عزائم کے تحفظ اور سرپرستی کے لیے حکومت وقت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے خلاف لوگوں کو سول نافرمانی کی ترغیب دے رہے تھے تو مولانا تاج محمودؒ کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی یہ آواز مسجد کی سیڑھیوں کے نزدیک کھڑی ایک خاتون بھی ہمہ تن گوش ہو کر سن رہی تھی۔ دفعتاً شدت جذبات سے مغلوب ہو کر ساری مسجد میں پھیلے ہوئے مجمع کو چیرتی ہوئی وہ آگے بڑھی اور اپنی گود کے بچہ کو منبر کے نزدیک جا کر (جہاں مولانا کھڑے تقریر کر رہے تھے) مولانا کی طرف اچھال دیا اور کہا ’’مولانا! میرے پاس ایک یہی سرمایہ ہے، اسے سب سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و آبرو پر قربان کر دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ عورت الٹے پائوں باہر کی طرف چل پڑی۔ اس منظر کو دیکھ کر سارا مجمع دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ خود مولانا کی آواز گلوگیر اور رُندھی ہوئی تھی۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ لوگو! اس بی بی کو جانے نہ دینا۔ اسے بلائو۔ چنانچہ اس خاتون کو بلایا گیا اور مولانا نے کہا کہ بی بی، سب سے پہلے گولی تاج محمود کے سینے سے گزرے گی، پھر میرے اس بچے (اپنے قدموں میں بیٹھے اپنے چھوٹے سے اکلوتے بیٹے طارق محمود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے سینے سے، پھر اس مجمع کے تمام افراد گولیاں کھائیں گے اور جب یہ سب قربان ہو جائیں تو اپنے اس بچے کو لے آنا اور اللہ کے پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان کر دینا۔ یہ کہا اور وہ بچہ اس عورت کے حوالے کر دیا۔

q          مولانا تاج محمودؒ کی وفات کے بعد بعض صلحاء کو بشارتیں ہوئیں۔ ایک صاحب نے دیکھا کہ مولانا بہت خوبصورت کپڑوں میں ہیں۔ پوچھا، کیسے گزری۔ فرمایا ’’معاملہ تو بہت سخت تھا، مگر میرے ہاتھ پر ایک شخص قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہوا تھا، اس کی برکت سے بخشش ہو گئی۔‘‘

q          حضرت مولانا اللہ وسایا بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مولانا عبدالعزیز صاحب رائے پوریؒ نے نماز عیدالفطر، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا تاج محمودؒ کی مسجد میں ادا فرمائی۔ مولانا مرحوم کی وفات کے بعد یہ پہلی عید تھی، اس لیے آپ نے اپنے مخلص ورکروں اور حضرت مولانا مرحوم کی اولاد اور ارادت مندوں سے شفقت فرمائی کہ آپ کے تشریف لانے سے بہت ہی زیادہ حوصلہ افزائی ہوئی۔ مولانا مرحوم کے صاحبزادے طارق محمود اور مولانا فقیر محمد صاحب نے حضرت سے درخواست کی کہ آپ مولانا تاج محمود صاحب کی بیٹھک میں تشریف لے چلیں۔ فرمایا نہیں، میں مولانا کے پاس ہی بیٹھوں گا۔ یہ فرما کر حضرت مولانا تاج محمود صاحب کی قبر مبارک پر تشریف لائے۔ دیر تک کچھ پڑھتے رہے۔ مراقبہ کی حالت آپ پر طاری تھی مگر کیا مجال کہ کسی کو کچھ محسوس ہو کہ آپ پر کیا کیفیت ہے۔ یعنی صاحب کرامت و کشف ہونے کے باوجود اخفا اتنا ہوتا ہے کہ کیا مجال ہے کہ کسی کو کچھ علم ہو کہ یہ بھی کچھ ہیں۔ دعا فرمائی، چل دیے۔

بعد میں فقیر اپنے گرامی قدر مخدوم جناب محمد اقبال صاحب کے ہمراہ حضرت کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ دست بوسی کے بعد بیٹھتے ہی ہمارے دل میں خیال آیا کہ حضرت سے پوچھوں کہ میرے محسن مولانا تاج محمود صاحب کا کیا حال ہے؟ حضرت کا احترام اور مزاج مانع رہا مگر دل میں یہ خیال بار بار آیا کہ پوچھ لینے میں کیا حرج ہے؟ میری اس قلبی کیفیت کو اللہ رب العزت نے آپ پر منکشف فرما دیا۔ فوراً میری طرف نظر شفقت فرمائی اور فرمایا ’’مولانا تاج محمود جنت الفردوس میں مزے لوٹ رہے ہیں اور یہ سب کچھ تحفظ ختم نبوت کے کام کا صلہ ہے۔‘‘