Language:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خواہش

            رات کا سماں ہے، جگمگ کرتے ستاروں کے درمیان چاند اپنی سیادت جمائے دودھیا کرنیں بکھیر رہا ہے، ایک پاکدامن خاتون آسمان کے چاروں طرف نگاہ دوڑاتی ہیں تو اسے ستارے ہی ستارے نظر آتے ہیں، وہ انھیں گننے کی کوشش کرتی ہیں مگر وہ تو لاتعداد اور اَن گنت ہیں اور رب کائنات کی بندگی اور حمد و ثنا میں مصروف ہیں۔ اتنے میں اس کے ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے تو وہ عقیدت بھری نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ہیں جو اس کے قریب ہی تشریف فرما ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے پوچھتی ہیں ’’اے اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں ان جگمگاتے ستاروں کے برابر ہوں؟‘‘

خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں ’’جی ہاں! کیوں نہیں، عمر فاروقؓ کی نیکیاں آسمان کے ان ستاروں کے برابر ہیں۔‘‘ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ کچھ افسردہ سی ہو جاتی ہیں اور خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  خاموشی کا سبب دریافت فرماتے ہیں تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ’’میرے خیال میں یہ تھا کہ میرے والد محترم کی نیکیاں آسمان پر جگمگاتے ستاروں کے برابر ہوں گی مگر اے کاش ایسا ہوتا!‘‘

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  زیر لب مسکراتے ہیں اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لب کھلتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ مطہرہ کا منزہ چہرہ فرط مسرت سے کھلکھلا اٹھتا ہے۔ تمام افسردگی، غمگینی اور اداسی کا فور ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں ’’اے عائشہؓ! تیرے والد محترم ابوبکر صدیق کی صرف ایک رات کی غارِ ثور والی نیکی ان تمام ستاروں کے برابر نیکیوں پر بھاری ہے۔‘‘

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق  ؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں اور اس کے بدلہ میں مجھے اپنی زندگی کی صرف دو نیکیاں دے دیں۔ ایک رات کی نیکی اور ایک دن کی نیکی۔ رات کی وہ نیکی جب آپ ہجرت کے وقت، غار ثور میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے اور دن کی وہ نیکی جب آپ تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کے لیے یمامہ کی طرف لشکر اسلام روانہ کر رہے تھے۔