Language:

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ االلہ علیہ

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جو احیائے اسلام اور تجدید دین کے باعث محی الدین تھے۔ آپ علم و عرفان اور شریعت و طریقت، دونوں میں جامع تھے۔ قدرت نے انھیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے بطور خاص تیار کیا تھا۔1890ء میں حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ نے مستقل طور پر مدینہ طیبہ میں سکونت پذیر ہونے کا ارادہ کر لیا۔ لہٰذا اس غرض سے حج کا سفر کیا۔ مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے بعد بہت خوش ہوئے کہ اب زندگی کی باقی تمام بہاریں گنبد خضرا کی ٹھنڈی چھائوں تلے گزاریں گے۔ اسی روز حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم پیر مہر علی شاہؒ کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: ’’مہر علی، ہندوستان میں مرزا قادیانی میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔واپس جائو اور اس فتنہ کا سدباب کرو۔‘‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی اپنے امتی کو ہمیشہ اعلیٰ و ارفع کام کا حکم دیتا ہے۔ مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم  میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، جبکہ بیت اللہ شریف میں ایک نماز ادا کرنے پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ، حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو کہ مدینہ طیبہ میں مرے، اسے چاہیے کہ وہیں مرے، اس لیے کہ میں اس شخص کا سفارشی ہوں گا جو مدینہ میں مرے گا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میں اس کا گواہ بنوں گا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)

لیکن یہاں حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ایک امتی کو حکم دے کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے واپس ہندوستان بھیج رہے ہیں۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا کام جہاد عظیم ہے۔ اس کام سے بڑھ کر کوئی کام ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ جو کوئی شخص دنیا کے کسی خطے میں تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اسے بیت اللہ شریف اور مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں نمازیں پڑھنے سے کروڑوں درجہ زائد ثواب ملتا رہے گا کیونکہ اس کی کوشش سے ایک مسلمان مرتد ہونے سے بچ جاتا ہے اور ایک گم کردہ راہ قادیانی واپس اسلام کی آغوش میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے تو اس کو ثواب تو ہوگا ہی لیکن اس کی وجہ سے جتنے آدمی اس نیک کام کو شروع کریں گے یا اس فتنہ کے کفریہ عقائد سے آگاہ ہو کر اپنا ایمان بچائیں گے یا اس فتنہ میں مبتلا لوگ واپس حلقہ بگوش دین متین ہو جائیں گے تو ان سب لوگوں کی نیکیوں میں اس شخص کا بھی مستقل حصہ ہوگا۔ تحفظِ ختم نبوت کا کام ایک ایسے سرمائے کی مثل ہے جو کسی فیض رساں تجارت میں لگا دیا جائے تو اس سے ہمیشہ اس کا منافع ملتا رہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ تحفظ ختم نبوت کے کام کی سرپرستی اور نگرانی براہ راست حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خود راہنمائی بھی فرماتے ہیں۔

چنانچہ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ واپس ہندوستان تشریف لائے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیر صاحب نے نہ صرف مسلمانوں کو اس فتنہ کی شر انگیزیوں سے آگاہ کیا بلکہ قادیانیت کی تردید میں کئی ایک کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں قادیانی عقائد و عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ کی بھرپور کوششوں سے مرزا قادیانی حواس باختہ ہو گیا اور کہا کہ بادشاہی مسجد لاہور میں میرے ساتھ تفسیر نویسی کا تحریری مناظرہ کر لیں۔ پیر صاحب نے جواباً فرمایا کہ ممکن ہے اس طرح مناظرہ میں فیصلہ نہ ہو سکے۔ ایک کاغذ پر قلم تم رکھ دو، ایک کاغذ پر قلم میں رکھ دیتا ہوں۔ جس کا قلم خود بخود لکھنا شروع کر دے، وہ سچا اور جس کا قلم پڑا رہے وہ جھوٹا۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ بھی منظور نہیں تو تم حسب وعدہ، شاہی مسجد میں آئو، ہم دونوں اس کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں، جو سچا ہوگا، وہ بچ جائے گا اور جو کاذب ہوگا، وہ مر جائے گا۔ مرزا قادیانی نے جواب میں اس طرح چپ سادھی کہ گویا دنیا ہی سے رخصت ہو گیا۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے پیر صاحب کی یہ رجز خوانی تیرہ سو سال کے اولیا و مشائخ کی روحانی قوتوں کا فیضان تھا اور نہ جانے کون کون سی ہستیاں آپ کی پشت پناہ تھیں۔ ایک بزرگ حضرت سید چانن شاہ جابہ شریف اس عرصے میں اپنے ایک خواب کی کیفیت بیان کرتے تھے:

’’میں نے ایک فوج کو عَلَم لہراتے دریائے جہلم کے پل پر سے لاہور کی طرف جاتے دیکھا جس میں سے ایک صاحب نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ہم بغداد شریف سے آ رہے ہیں اور پیر صاحب گولڑہ شریف کی نصرت کے لیے جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کے مقابلے پر لاہور جا رہے ہیں۔‘‘

کچھ عرصہ بعد قادیانی جماعت کا ایک وفد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ایک اندھے اور ایک اپاہج یعنی لنگڑے کے حق میں آپ دعا کریں، دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا قادیانی دعا کرے۔ جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا ٹھیک ہو جائیں، وہ سچا ہے، اس طرح حق و باطل کا فیصلہ ہو جائے گا۔ پیر صاحب نے جواب دیا کہ یہ بھی منظور ہے۔ مزید مرزا قادیانی سے یہ بھی کہہ دیں کہ اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آ جائے، ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی کو پیر صاحب کے سامنے آنے کی ہمت نہ پڑی۔ اس پر پیر مہر علی شاہؒ نے فرمایا: ’’یہ دعویٰ میں نے ازخود نہیں کیا تھا بلکہ عالم مکاشفہ میں حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم  کے جمال باکمال سے میرا دل اس قدر قوی اور مضبوط ہو گیا تھا کہ مجھے یقین کامل تھا کہ اگر اس سے بھی کوئی بڑا دعویٰ کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف ضرور مجھے سچا ثابت کرتے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اس کی پشت پر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘

پیر صاحب کا یہ احساس تائید ربانی سے بہرہ ور تھا کیونکہ تحفظ ختم نبوت کی اس جدوجہد میں شروع ہی سے آپ کو حضور سید المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم  کے بے پایاں لطف و کرم کی تجلیاں اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھیں۔