Language:

جب مرزا کادیانی کو موت آئی

مرزا قادیانی ملعون ازلی کے مرض الموت سے موت تک اور پھر موت سے تدفین تک کے پروگرام کی تفصیل کچھ یوں ہے۔مرض:۔ہیضہ ،دن:۔منگل،ٹائم:۔ساڑھے دس بجے،موسم:۔گرما، مہینہ:۔مئی،تاریخ:۔26،شہر:۔لاہور ،جائے مرگ:۔ٹٹی خانہ،مدفن:۔قادیان،لاہور سے قادیان جس سواری پر لے جاگیا۔:۔مال گاڑی
مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ ”آخری فیصلہ” اس میں مرزا قادیانی نے مولانا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:”اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ اکثر اوقات اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں گا۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ امرتسری ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتاہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کرمگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ کے امراض مہلکہ سے۔”
مباہلہ سنت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور مباہلہ میں جھوٹے پر اللہ کا عذاب لپک کرنازل ہوا کرتا ہے کیونکہ اس مباہلہ میں مرزا قادیانی نے رب ذوالجلال سے لکھ کر درخواست کی تھی کہ مولاتو جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ماردے لہذا اسے سچے حریف مولانا امرتسری کی زندگی میں مارنے کا پروگرام بن گیا لیکن سب سے پہلے سوال یہ اٹھا کہ مرزا قادیانی کو کس مرض سے مارا جائے اس سوال پر ساری بیماریاں اللہ کے حضور محو التجا ہوئیں۔”بخار بولا! مولا تو اس کو میرے حوالے کر میں اپنی تپش سے اس کے وجود کو جلا کر خاک سیاہ بنا دوں گا۔کینسر بولا، رب ذوالجلال! اسے میرے شکنجے میں دے، میں اس کے پورے جسم کو پھوڑا بنا دوں گاور ایڑیاں رگڑ گڑ کر اسکی جان قسطوں میں نکلے گی۔سردرد بولا مالک کائنات ! تو مجھے اس پر مسلط کردے میں اس کے دماغ کے پرخچے اڑا دوں گا۔ایک کونے میں مسٹر ہیضہ بیٹھا تھا۔ وہ بڑے احترام سے کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ مولا! تیرے پاس بڑی ہولناک بیماریاں ہیں میں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن مولا! کیونکہ تیری ساری بیماریوں میں سب سے گندہ میں ہوں اور تیری ساری مخلوق میں سب سے گندہ مرزا قادیانی ہے لہٰذا اصول یہی ہے کہ گندے کو گندہ مارے۔ اس لئے مرزے کو مارنے کا حق میرا بنتا ہے۔ماحول پر خاموشی چھا گئی اور فیصلہ ہیضہ کے حق میں ہوگیا۔”
پھر سوال اٹھا کہ اس کی موت کا دن کونسا رکھا جائے ؟ہر دن اللہ سے التجائیں کرنے لگا کہ مرزا اس کے دامن میں تڑپ تڑپ کر جان دے اور وہ اسے تڑپتا پھڑکتا دیکھ کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرسکے۔ لیکن منگل نے روتے ہوئے کہا۔ اے اللہ! مرزا قادیانی کذاب کا کہنا تھا کہ منگل کا دن بڑا منحوس ہے۔اس کے منہ سے یہ نکلے ہوئے تیر میرے سینے میں پیوست ہوجاتے ہیں، خداوند ! اب میرے ساتھ انصاف یہی ہوگا کہ اسے منگل والے دن ہی مارا جائے تاکہ رہتی دنیا تک جن و انس اس پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتے رہیں کہ دیکھو مردود جس دن کو منحوس کہتا تھا اسی دن مرگیا۔ پھر کیا تھا منگل بازی لے گیا۔
سوال اٹھا کہ اسے دن کو مارا جائے یا رات کو؟دن کہنے لگا میرے مالک اسے دن میںمارا جائے کیونکہ یہ اپنی نبوت کاذبہ کا سارا کام دن میں کرتا تھا۔ لوگوں سے پیسے دن میں بٹورتا تھا۔ دن میں ہی اپنے الہامات سناتا تھا۔ مناظرے اور مباحثے کرتا تھا۔ کچہری میںرشوتیں وصول کرتا تھا۔ میرے مالک اس نے مجھ میں بڑے گناہ کئے تھے اس لئے میرا قرض چکایا جائے اور اسے دن میں ہی مارا جائے۔ رات گلوکیر آواز میں بولی اگر فیصلہ اس کے گناہوں اور سیاہ کرتوتوں کے تناسب سے ہی کرنا ہے تو میرے مولا! ای پلومر کی شراب رات کو پیتا تھا۔ بھانو سے ٹانگیں دبواتا تھا۔ رات کو ہی ابلیس آکر اسے اپنی شیطانی وحی سے نوازتا تھا اور اگلے دن کاپروگرام دیتا۔ رات کے اندھیرے میں ہی اپنی باطل تصانیف کرتا۔ لوگوں سے سارے دن کا بٹورہ ہوا چندہ رات کو ہی گنتا تھا اور خوشی سے آوارہ قہقہے لگاتا تھا۔اور پھر جب یہ شیطانی کام کرتے کرتے تھک جاتا تو بستر پر دراز ہوجاتا اور پھر رات کی تاریکی اور سناٹے میں نوجوان لڑکیاں اسے پنکھنا جھلنے لگتیں اور یہ ننگ انسانیت بے حیائی کی ہوائوں میں بے غیرتی کی نیند سوجاتا۔مگریہ فیصلہ ہوگیا کہ مرزا دن کو مردار ہوگا ۔
پھر سوال اٹھا کہ دن کو کتنے بجے مارا جائے ۔سب سے آخر میں ”دس” اٹھا اور عرض کرنے لگا۔اے سمیع و علیم! اگر اسے ایک بجے ماراجا ئے تو اسے ایک جرم کی سزا ملے گی۔ اسی طرح اگر رات کے بارہ بجے بھی اس کا خاتمہ کیا گیا تو اس کی فرد جرم میں صرف بارہ جرائم ہوں گے لیکن میرے مالک! اس کے جرائم تو ان گنت ہیں۔ میرے مولا! یہ شخص ہر پہلو سے اور ہر جہت سے اسلامی دنیا کا مجرم اعظم ہے۔ لہٰذا اس کے تمام جرائم کو ایک ”اصطلاح” دس نمبر یا قرار دے سکتے ہیں اور کیونکہ یہ دس نمبریاہے بلکہ یہ دس نمبریاسے بھی بڑھ کر ”ساڑھے دس نمبریا” ہے۔ لہٰذا اسے ساڑھے دس بجے مارا جائے ۔ یہ جواب بڑا منطقی اور عقل و دانش پر مبنی تھا۔ اس لئے مرزا قادیانی کی موت کا وقت ساڑھے دس بجے مقرر ہوگیا۔
پھر سوال اٹھا کہ مرزا قادیانی کو کس موسم میں مارا جائے گرمی میں یا سردی میں؟گرمی نے گرم گرم دلائل دیتے ہوئے کہا۔ اے خدا! اسے گرمی کے موسم میں مردار کر کیونکہ اگر یہ سردی کے موسم میں مرا تویہ ایک دو دن نکال جائے گی۔ اور اگر گرمی میں مرا تو ایک غلیظ مرتد مردہ ، اوپر سے ہیضہ کی موت۔ منہ اور مقعد سے غلاظت کا اخراج مسلسل، کفن کا غلاظت میں لتھڑا جانا اوپر سے چلچلاتی اور جلاتی دھوپ، میت سے بدبو کے ایسے بھبھوکے اٹھیں گے کہ قادیانیوں کے دماغ پھٹ جائیں گے۔ جنازے کا جلوس جہاں سے گذرے گا بدبو کی تاب نہ لاتے ہوئے لوگ بھاگ جائیں گے۔گرمی کے دلائل سننے کے بعد سردی نے گرمی کی افادیت پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے گرمی کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔
پھر سوال اٹھا کہ مہینہ کونسا رکھا جائے؟موسم گرما میں آنے والے سارے مہینے اپنے اپنے حق میں دلائل دینے لگے۔ لیکن ماہ مئی سب پر سبقت لے گیا۔ مئی عرض کرنے لگا اے رب ذوالجلال! موسم گرما کا آغاز مجھ ہی سے ہوتا ہے۔ میری نوکیلی اور آگ برساتی ہوئی کرنیں مرزے کے جسم سے بدبو، تعفن اور سڑاند کے ایسے طوفان اٹھائیں گی کہ الامان والحفیظ۔ اس کے علاوہ میرا ایک قدرتی حق بھی بنتا ہے کہ م سے مئی اور م سے مرزا قادیانی۔ م سے مئی اور م سے مسیح کذاب۔ م سے مئی اور م سے مینارة المسیح۔ م سے مئی اور م سے مرتد۔ ماہ مئی بولے جارہا تھا اور سارے مہینے اس کے دلائل سن رہے تھے۔ فیصلہ میرٹ پر ہوگیا اور مئی فاتح قرار پایا۔
پھر سوال اٹھا کہ مئی کی تاریخ کون سی رکھی جائے؟ہر تاریخ کو باری باری بولنے کا موقع دیا گیا۔ لیکن 26تاریخ اللہ کے حضور التجا کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ”اے رب السموت والارض! اس نبی کاذب کا پورا نام”مرزا غلام احمد قادیانی نبی فرنگ ہے۔” اگر اس کے پورے نا م یعنی ”مرزا غلام احمد قادیانی نبی فرنگ ”کے حروف تہجی کو گنا جائے تو وہ پورے چھبیس بنتے ہیں۔ اس لئے میرا قدرتی اور فطری حق ہے۔ 26مئی کی اس انوکھی ،نرالی اور اچھوتی دلیل پر سب نے اسے مبارک باد دی ۔
موت کی تاریخ مقرر کرنے کے بعد پھر سوال اٹھا کہ مرزا قادیانی کو کس شہرمیں ماراجائے خدا کی دھرتی پر بسنے والے سارے شہر جھولیاں پھیلا پھیلا کر اللہ سے یہ مراد طلب کرنے لگے ۔ شہر لاہورگویاہوا، خداوند!ہر شہر تیرے رسولۖ کے دشمن کو دبوچنے کے لئے تڑپ رہا ہے۔ لیکن اس کا میرے ذمہ ایک قرض ہے ،آج سے کچھ برس قبل اس دجال نے تیرے ولی کامل پیر مہر علی شاہ گولڑی کو لاہور کی شاہی مسجد میں مناظرے کا چیلنج دیا تھا۔ لیکن عین وقت عیار مرزا قادیانی میدان سے فرار ہوگیا اور میں دانت پیستا رہ گیا۔ اور اس وقت سے آج تک انتقام کے شعلوں میں جھلس رہا ہوں۔ تو اسے میرے حوالے کردے تاکہ میں اپنے جھلستے ہوئے کلیجے کو ٹھنڈا کرسکوں۔ لاہو رنے اپنا مقدمہ خوب لڑا اور فاتح ٹھہرا۔ یہ مسئلہ تو طے ہوگیا کہ مرزا قادیانی لاہور میں مرے گا۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھا کہ لاہور میں کس مقام پر مرے گا۔فیصلہ ہوا ٹٹی خانہ کے حق میں ہوگیا۔
پھر سوال اٹھا کہ مرزا قادیانی کو دفن کس شہر میں کیا جائے؟ لیکن قادیان نے اجازت طلب کر کے سب سے پہلے اپنا خطاب شروع کیا۔اے عادل اعظم! اس نے میری کوکھ سے جنم لیا۔ اپنے نام کے ساتھ میرا نام لکھا۔ مجھے ہی اس نے اپنی نبوت کا مرکز بنایا۔ ا س کے برپا کردہ فتنہ کو میرے نام ملنے لگایعنی فتنہ قادیان ۔ اس لعین نے میرے وجود کو گالی بنا دیا۔ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ میری دھرتی پر پلنے والے یہ زہریلا سانپ میرے ہی سپرد کیا جائے تاکہ قبر میں لٹا کرتو میں اس کی پسلیاں توڑ سکوں۔ لپکتے شعلوں میں اسے جلتا دیکھ سکوں۔ برستے کوڑوں میں اس کی چیخیں سن سکوں۔ سانپوں کو اس کی آوارہ زبان نوچتے ملاحظہ کرسکوں۔مولا! یہ میرے ارمان ہیں میری یہ التجائیں قبول کر لے۔قادیان کے دلائل اتنے مبنی بر حقیقت تھے کہ فوراً قادیان کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا۔
پھر سوال اٹھاکہ اس کے جنازے کو کس سواری پر رکھ کر قادیان لے جایا جائے؟یکہ بولا! اسے میرے حوالے کردے، میں دولتیاں جھاڑ جھاڑ کر اس کا منہ توڑ دوں گا۔کار بولی! اے مولا! میں راستے میں کسی ویرانے میں جا کر پنکچر ہوجائوں گی اور یہ وہیں گل سڑ جائے گا۔بس بولی۔اسے مجھے دے دیں میں راستے میں خراب ہوجائوں گی۔ یہ تو سڑاند سے پھول کر دوگنا ہوجائے گا۔ باقی قادیانی دھکا لگا کر پھول کر چوگنے ہوجائیں گے۔آخر میں مال گاڑی بولی اے قہار! یکے،کارا ور بس میں انسان سفر کرتے ہیں لیکن مجھ میں بھیڑ، بکریاں، گدھے، ، دنبے ، گائیں ، بھینسیں، مرغیاں، بطخیں، کتے اور خنزیر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ انسان کے روپ میں جانوروں سے بدترین مخلوق ہے۔ لہٰذا یہ حق صرف میرا ہے۔ مال گاڑی کے دلائل بڑے وزنی تھے۔ لہٰذا مال گاڑی کو اس کا مال دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام مکمل ہوگیا۔ اور سیل کردیا گیا۔
سورج مشرق کی کوکھ سے طلوع ہو کر مغرب کی لحد میں ڈوبتارہا۔آخر26مئی آگیا۔ منگل کا دن آگیا۔ مسٹر ہیضہ مسلح ہو کر لاہور پہنچ گیا۔ مرزا قادیانی اپنے ایک مرید کے گھر واقع برانڈرتھ روڈ لاہور وارد ہوتا ہے۔ مریدوں کے ہجوم میں شیطانی گفتگو کا دور چل رہا ہے۔ دن اپنی مسافت طے کر کے اپنے اجالوں سمیت رخصت ہوچکا ہے۔ رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے۔ دستر خوان بچھ گیا ہے۔ پلائو، قورمہ، مرغا، حلوہ، فرنی، تیتر اور بٹیر اپنی بہار دکھا رہے ہیں اور خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔ پیٹ کا حریص مرزا قادیانی دونوں ہاتھوں اور بتیس دانتوں سے کھانے کا صفایا کررہا ہے۔ پیٹ کا مٹکا بھرچکا ہے۔ لیکن نیت کا مٹکا خالی ہے۔ سامنے مسٹر ہیضہ کھڑا مسکرا رہا ہے اور حملے کے سگنل کا منتظر ہے۔ آن واحد میں ہیضہ ماہر کمانڈو کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور مرزا قادیانی کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے۔ پیٹ کو سنبھالتا ہوا لیٹرین کی طرف بھاگتا ہے۔ فارغ ہو کر آتا ہے کہ فوراً دوسرادست ٹھاہ کر کے آجاتا ہے، پھر لیٹرین کی طرف دوڑتا ہے۔ کمزوری اور نقاہت جسم پر قبضہ کرلیتی ہیں جب فارغ ہو کر آتا ہے تو رات کو سورج نظر آرہا ہوتا ہے۔ چارپائی پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر اتنی ہمت نہیں رہتی کہ اٹھ کر لیٹرین میں جائے چارپائی کے ساتھ عارضی لیٹرین بنادی جاتی ہے۔ مسٹر ہیضہ اپنی سپیڈ تیز کردیتے ہیں۔ دست مشین گن کی گولیوں کی طرح وارد ہونے لگتے ہیں۔ دستوں اور زندگی میں دست بدست لڑائی ہونے لگتی ہے۔ مرزا قادیانی چارپائی پر گرگیا ہے ۔ نبضیں ڈھیلی پڑ گئی ہیں۔ ماتھے پر ٹھنڈے پسینے آگئے ہیں۔ نتھنے پھیل رہے ہیں۔ آنکھیں پتھرا رہی ہیں۔اور انگریزی نبوت کا جسم ”ٹوسٹ” کررہا ہے۔ ڈاکٹر انگریزی نبی کے جسم میں ٹیکے لگا رہے ہیں۔ لیکن فاتح مرزاقادیانی ”مسٹر ہیضہ” مرزا قادیانی کے سینے پر سوار ہوچکا ہے۔لیجئے دن کے ساڑھے دس بجنے والے ہیں۔ موت گھر کی دیوارعبور کرچکی ہے اور فرشتہ اجل نے فولادی ہاتھوں سے غلیظ جسم سے روح نکال لی ہے۔ اور مرزا قادیانی ہیضہ کی تباہ کن بائولنگ سے کلین بولڈ کیا جاتا ہے۔ فضائوں میں قادیانی زبانوں کی چیخیں بلند ہوتی ہے۔ ابلیس کا لاڈلا بیٹا داغ مفارقت دے گیا ہے۔ فرنگی کا نبی انتقال کرگیا ہے۔مسیلمہ کذاب کا سانڈو منہ موڑ گیا ہے۔ جھوٹ کا ابا مرگیا ہے۔ خباثت کا تایا فوت ہوگیا ہے۔ دجل و فریب کا خالو چل بسا ہے۔ عریانی فحاشی کا پھوپھا خاموش ہوگیا ہے اور گالیوں کا ہیڈ ماسٹر جہنم میں ٹرانسفر ہوگیا ہے۔
مرید کے گھر میں مرزا قادیانی کی لاش پڑی ہے۔ بدبو نے اپنے جوہر دکھانے شروع کردئیے ہیں۔ لاہور میں مرزا قادیانی کی موت کی نوید مسرت بادصبا کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اور عاشق رسول اہل لاہور اس فرنگی نبی کو ”کڑاہی توپوں” کے اکیس اکیس ”کڑاہی گولوں” کی سلامی دینے کی خفیہ تیاری شروع کردیتے ہیں۔
گھروں کاسارا کوڑا کرکٹ کڑاہیوں میں ڈال کر چھتوں کی منڈیروں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ جونہی جنازے کا جلوس مرید کے گھر سے سرکتا ہے۔ مرزے کی لاش پر ”کڑاہی توپوں” کی سلامی شروع ہوجاتی ہے۔ کڑاہیوں کے گولے فضا میں رقص کرتے ہوئے آتے ہیں اور مرزا قادیانی کا منہ چوم چوم جاتے ہیں۔ مرزا قادیانی غلاظت میں ڈوب جاتا ہے۔ حفاظت کے لئے آئے ہوئے سپاہیوں کی وردیاں بھی غلاظت سے بھر جاتی ہیں۔ بڑی مذمت اور مرمت کے بعد میت کو ریلوے سٹیشن لایا گیا۔ میت کو قادیان لے جانے کے لئے ریل گاڑی میں بکنگ کرائی جانے لگی۔ لیکن جب اصول پرست اور اکھڑ ریلوے افسر کو پتہ چلا کہ مرزے کی موت ہیضہ سے ہوئی ہے تو اس نے ریلوے قانون کے مطابق یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ ہیضہ ایک وبائی مرض ہے۔ اس لئے خطرہ کے پیش نظر میت کو بک نہیں کیا جاسکتا۔ قادیانی بھاگم بھاگ اعلیٰ انگریز ریلوے افسر کے پاس پہنچے اور رورو کر کہنے لگے، جناب آپ کا انگریزی نبی ریلوے سٹیشن پر بے یارومددگار پڑا ہے۔ مسلمان ٹھٹھہ و مذاق کررہے ہیں۔ اور ہم آپ کے بنائے ہوئے نبی کے خادم ذلت کی خاک چاٹ رہے ہیں۔ اعلیٰ ریلوے حکام کی طرف سے سپیشل رپورٹ کے تحت میت کوآخر مال گاڑی میں بک کیا جاتا ہے اور مرزا قادیانی بکروں، چھتروں، دنبوں، گائیوں، بھینسوں، گدھوں، گھوڑوں، مرغیوں، بطخوں او ر خنزیروں کی رفاقت میں قادیان روانہ ہوجاتا ہے۔ قادیان میں چند نفوس اس کا نام نہادہ جنازہ پڑھتے ہیں اور پھر قادیان کی غلاظت کو قادیان میں گاڑ دیا جاتا ہے۔