Search By Category
مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ
مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کے فاضل اجل اور عالم بے بدل ہونے کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ درویش صفت مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ خطابت کے بادشاہ بھی تھے۔ بات کو تمثیل کے ساتھ سمجھانے کا ڈھنگ جانتے اور اس میدان میں اپنی نظیر آپ تھے۔ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ان کی خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
مولانا محمد علی جالندھریؒ 20 سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند سے مروجہ درسِ نظامی کی سندِ تکمیل لے کر نکلے اور یوں ان کی کتاب زندگی میں ایک شاندار باب کی تکمیل ہوئی۔ جس دن دارالعلوم سے نکل رہے تھے اس دن سید انور شاہ کشمیریؒ نے الگ بلا کر کہا ’’تحفظ ختم نبوت کو اپنا مشن بنا لینا۔‘‘ فرمایا کرتے تھے جب میں دارالعلوم سے نکلا تو میرے ذہن میں دو باتوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایک انگریز سے نفرت، دوسری آنجہانی مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کے خلاف جہاد کا جذبہ، گویا کہ میری سند میں انھیں دو مضمونوں سے فراغت کی شہادت درج تھی۔
q حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی تقاریر میں وہ جذب اور کیفیت ہوتی تھی کہ قلم جس کو لکھنے سے قاصر اور زبان بیان کرنے سے عاجز ہے۔ ایک جمعہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم ایک ایک کے دروازے پر جا کر دستک دیں گے اور دامن پھیلا کر ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم و ختم نبوت کا واسطہ دے کر بھیک مانگیں گے، اور پھر گلو گیر لہجہ میں فرمایا کہ دیوبندی اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ ہم علمائے حق کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور تم خاموش اپنے گھروں میں بیٹھے ہو۔ میں بریلوی حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ تمھیں دعویٰ ہے کہ تم سے زیادہ اور بڑا کوئی عاشق رسولؐ نہیں اور یارسول اللہ کے نعرے لگاتے ہو۔ کیا تم کو اس کی خبر نہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں بے چین ہیں اور تم اپنے حلوے مانڈے کی فکر میں ہو اور اہل حدیث حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ تمھیں دعویٰ ہے کہ تمھارے سوا کوئی بھی زیادہ حدیث پر عمل کرنے والا نہیں۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ احادیث کے مقابلے میں نئی احادیث بنائی جا رہی ہیں اور شیعہ حضرات سے بھی پوچھتا ہوں کہ تمھیں شیعان علیؓ کا دعویٰ کرتے ہوئے شرم آنا چاہیے کہ ایک شخص حضرت فاطمہ الزہراؓ کے متعلق بکواس کرتا ہے اور حسنینؓ اور کربلا کے متعلق جو کچھ بکتا ہے، کیا تم اس سے بے خبر ہو، کیا تمھیں اس کی خبر نہیں؟
q ایک بار حضرت مولانا جالندھریؒ کا چک 6، تحصیل چشتیاں (ضلع بہاولنگر) جانا ہوا۔ چشتیاں تک ریل گاڑی میں سفر کیا۔ آگے چک تک منتظمین جلسہ نے تانگے کا انتظام کیا۔ راستے میں تانگہ خراب ہو گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ اسی تانگہ میں جلسہ کے لیے لائوڈ سپیکر اور بیٹری بھی لدے ہوئے تھے۔ آپ کی علمی وجاہت کے پیش نظریہ سوچا گیا کہ کسی اور سواری کا انتظام کیا جائے اور انتظار کیا جائے۔ آپ نے ساتھ لے جانے والے ساتھی سے کہا ’’میاں دوسری سواری کے آنے تک ہم پیدل چل کر جلسہ گاہ تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ آپ تو پیدل چل لیتے مگر مسئلہ لائوڈ سپیکر اور بیٹری کا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھی کو سمجھا بجھا کر آمادہ کر لیا کہ وہ لائوڈ سپیکر سر پر اٹھائے اور آپ بیٹری اٹھائیں گے۔ فرمایا کرتے تھے ’’بیٹری وزنی تھی، میں تھک کر چور ہو گیا مگر چلتا رہا اور دعا کرتا گیا اے اللہ! تیرے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی خدمت ہے، قبول کر لینا۔ اس محبوبصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میری جان بھی قربان ہو جائے تو زہے نصیب۔‘‘
تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں ہمیں بھی ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ بظاہر ایسی چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہاڑ برابر ثواب کا درجہ رکھتی ہیں۔
q حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے ایک مرتبہ کسی جلسہ میں دورانِ تقریر فرمایا:
’’دیکھو! میں اپنی عمر کے آخری پیٹے میں ہوں، بوڑھا ہو گیا ہوں، شاید جدائی کا وقت قریب ہو، میں تین طبقوں سے ایک ہی درخواست کرنا چاہتا ہوں، شاید آپ اس پر عمل کر کے میری قبر ٹھنڈی کریں۔
-1 سرکاری حکام اور اربابِ حل و عقد کو میری وصیت ہے کہ وہ عقیدۂ ختم نبوت کے وفادار بن کر رہیں اور کسی عہدہ کے لالچ یا دنیا کی عارضی عزت کے بدلے پیارے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمسے بے وفائی کرتے ہوئے منکرینِ ختم نبوت کی مدد یا حوصلہ افزائی نہ کریں، ورنہ ان کا حشر وہی ہوگاجو ان سے پہلے ان حکام کا ہو چکا ہے جنھوں نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا عہد وفا توڑ دیا اور دشمنانِ عقیدۂ ختم نبوت کے ہاتھ مضبوط کیے، پھر آپ نے چند ایسے بدنام زمانہ حکام اور افسران کے عبرتناک واقعات بھی سنائے۔
-2 علمائے کرام کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کی یہ درسگاہیں جو ان کے لیے آرام گاہیں بن چکی ہیں، انھیں میسر نہیں رہیں گی، جب ایسے حالات آ جائیں تو ثابت قدمی سے دین پر خود بھی قائم رہیں اور اشاعت دین بھی کرتے رہیں، ایسے حالات میں رستوں پر بیٹھ کر اور درختوں کے سائے میں ڈیرہ ڈال کر اللہ کریم کا دین پڑھاتے اور سکھاتے رہیں۔ آپ کے اسلاف نے ایسا کر کے دکھایا ہے، اس کے برعکس ایسے حالات بھی آئیں گے کہ ملازمت یا عہدہ کا لالچ دے کر علما کو خدمت دین سے باز رکھا جائے گا۔ خدارا، بھوکوں مر جانا مگر اللہ کریم کے دین سے بے وفائی کر کے اس دنیا کی فنا ہونے والی عزت پر نقد دین نہ لٹوانا، دین سکھاتے رہنا، بے شک کچھ بھی ہو جائے۔
-3 عام لوگوں سے میری درخواست ہے کہ ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب عقیدہ ختم نبوت کا نام لینا جرم بن جائے گا، اللہ کرے ایسا نہ ہو، لیکن اگر حالات تمھیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کر دیں تو جان دے دینا مگر باوفا نبی حضرت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی عارضی تکلیف پر بے وفائی نہ کرنا اور اپنے عقیدہ پر جمے رہنا، یہاں تک کہ موت تمھیں دنیا کی ان عارضی چیزوں سے بچا کر اللہ کریم کی دائمی نعمتوں والی جنت میں داخل کر دے کہ جس کی نعمتوں کے بارہ میں ارشاد ہے:
’’مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔‘‘ (متفق علیہ)
ترجمہ: ’’نہ کسی آنکھ نے انھیں دیکھا، نہ کسی کان نے ان کے تذکرے سنے اور نہ کسی دل پر ان (کی رنگا رنگی) کا خیال گزرا۔‘‘
q ضلع سرگودھا کے پہاڑی علاقہ میں غیر مسلموں کا ایک آشرم تھا جو قادیانیوں نے الاٹ کرا لیا تھا اور وہاں اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری کر دیں۔ حضرت امیر شریعتؒ کو جب علم ہوا تو اس علاقہ میں موضع جابہ کے قریب سالانہ کانفرنس منعقد کرنے کا حکم دیا۔ یہ کانفرنس دو یوم کے لیے ایک عرصہ دراز سے مرکزی جماعت تحفظ ختم نبوت کے خرچ پر ہر سال ماہ ستمبر میں ہوتی ہے۔ 1982ء میں بعض مجبوریوں کی بنا پر ایک میل دور ضلع اٹک کی حدود میں نئی جگہ کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس کے چند روز قبل تلہ گنگ کے حاجی محمد ابراہیم (ملک وال) نے خواب دیکھا کہ خود حاجی صاحب اور مولانا فضل احمد صاحب مع دیگر احباب کانفرنس کی شرکت کے لیے اس نئی جگہ میں آئے۔ جب پہنچے تو دیکھا اس میدان میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں اور فرما رہے ہیں، دیر ہو رہی ہے، جلسہ جلدی شروع کرو۔ محمد علی جالندھری سے کہو کہ جلسہ میں دیر نہ کیا کرے۔
q مولانا مرحوم خود سنایا کرتے تھے کہ تقسیم سے قبل میں ایک گائوں میں وعظ کے ارادے سے گیا۔ وہاں مرزائیوں کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو منع کر دیا کہ مولوی صاحب وعظ نہ کریں۔ مسلمانوں نے مجھے روک دیا۔ میں عشا کی نماز پڑھ کر سو گیا۔ میرے دل و دماغ پر صدمہ کے اثرات تھے کہ مسلمانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ یہ قادیانیوں سے اتنے مرعوب ہیں۔ رات کو خواب میں مجھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ میں انھیں خواب میں دیکھتے ہی حدیثوں کے مطابق ان کی علامتوں و نشانیوں کو پوری کرنے لگ گیا۔ چہرہ مہرہ، شکل و شباہت، وضع قطع، سر کے بالوں سے پانی کا ٹپکنا کہ جس طرح ابھی حمام سے نہا کر تشریف لائے ہوں۔ جب میں نے احادیث میں پڑھی ہوئی علامتوں کو پورا کر کے یقین کر لیا کہ واقعتا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں تو میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے اس دنیا میں آ گئے ابھی تو حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور نہیں ہوا، دجال کا خروج نہیں ہوا۔ آپ نے تو احادیثِ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے ان اہم دو امور (ظہورِ مہدی و خروج دجال) کے بعد تشریف لانا تھا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: محمد علی جالندھری جب تم میری حیات (لوگوں کے روکنے کے باعث) بیان نہیں کرتے تو میں خود اپنی حیات کی دلیل بن کر نہ آئوں تو کیا کروں۔ اس پر مولانا فرماتے ہیں کہ میری آنکھ کھل گئی۔ رات بھر ذکر و فکر میں گزار دی۔ دل میں فیصلہ کر لیا کہ جان جاتی ہے جائے مگر میں صبح حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر تقریر ضرور کروں گا۔ چنانچہ صبح نماز کے بعد مسجد میں اعلان کیا کہ مسلمانو! تم نے میری تقریر مسجد میں نہیں ہونے دی، اب میں اپنی ذمہ داری پر خود اس گائوں کے چوک میں تقریر کرنے لگا ہوں، جو سننا چاہیں آ جائیں۔ میں نے جا کر تقریر شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ گائوں کے لوگ آنے شروع ہو گئے۔ اسی اثنا میں مسلح زمیندار قادیانیوں کا ایک جتھا بھی آ گیا۔ ان کے سردار نے مولانا جالندھری کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے غیظ و غضب کے لہجے میں کہا: اگر آپ نے احمدیوں کے متعلق کچھ کہا، یا حیاتِ مسیح کا مسئلہ چھیڑا تو (مسلح آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا) پھر آپ یہ دیکھ رہے ہیں، خیر نہیں گزرے گی۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوا ہی تھا کہ مولانا نے فرمایا میرے سامنے بڑ کا ایک درخت تھا، اس کے تنے کے قریب سے ایک قد آور نوجوان اٹھا اور للکار کر مجھ سے مخاطب ہوا: مولانا آپ کو خدا کی قسم، جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کھل کر کہیں، یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بٹھا دیا اور زبان سے اتنا کہا، بہت شکریہ! پھر میں نے تقریر شروع کر دی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تقریر کرتا رہا۔ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، کہا۔ از روئے قرآن و حدیث حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت کی۔ کسی دشمن کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مجھے روکے۔ مجمع پر ایک سحر طاری تھا۔ جب میں نے تقریر ختم کی تو مجمع عقیدت کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے امنڈ پڑا۔ مصافحہ کے لیے ہر ہاتھ بڑھ رہا تھا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا بھئی وہ نوجوان کہاں ہے جس نے زمیندار کے جواب میں مجھے حوصلہ دیا تھا۔ وہ سب کہنے لگے ہم نے تو اسے اس گائوں میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ ہم تو یہ سمجھے وہ آپ کا ہی ساتھی ہے۔ میں نے کہا ’’وہ میرا ساتھی تو نہیں تھا۔‘‘ پھر ہم سب خدا کی اس قدرت پر حیرت زدہ رہ گئے۔
Recent Comments