Language:

مولانا ظفر علی خاںرحمۃ اللہ علیہ

            مولانا ظفر علی خاں بیسویں صدی کے آسمانِ علم و ادب کے ماہتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ ادیب، خطیب، صحافی، شاعر اور دینی غیرت و حمیت کے حامل ایک مجاہد شخص تھے۔ مولانا نے 1933ء میں قادیانیت کے عوامی احتساب کے لیے ایک جماعت بنائی۔ اس جماعت نے تقریباً ہر روز پبلک جلسے منعقد کرنا شروع کر دیے۔ حکومت نے قادیانی امت کی پشت پناہی کے لیے اندیشہ نقضِ امن کی آڑ لے کر 4 مارچ 1933ء کو مولانا ظفر علی خان اور ان کے رفقا مولانا احمد علیؒ، مولانا حبیب الرحمن، مولانا عبدالحنان، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد بخش مسلم اور خان احمد یار رزمی کو گرفتار کر لیا۔ یہ پہلا مقدمہ تھا جو سیاسی پس منظر کے تحت مرزائیت کی حمایت میں حکومت نے پہلی دفعہ مسلمان زعما کے خلاف تیار کیا۔ ٹھاکر کیسر سنگھ مجسٹریٹ درجہ اوّل نے حفظ امن کے لیے ضمانت طلب کی۔ مولانا احمد علی، مولانا حبیب الرحمن اور مولانا محمد بخش مسلم کے عقیدت مندوں نے ضمانتیں داخل کر دیں۔ لیکن مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالحنان، مولانا لال حسین اختر اور احمد یار خان نے انکار کر دیا۔ عدالت نے وہ نوٹس پڑھ کر سنایا، جو اس مقدمہ کی بنیاد تھا کہ:

’’تمھارے اور احمدی جماعت کے درمیان اختلاف ہے، تم نے اس کے عقائد اور اس کے مذہبی پیشوا پر حملے کیے ہیں، جس سے نقضِ امن کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وجہ بیان کرو کہ تم سے کیوں نہ نیک چلنی کی ضمانت طلب کی جائے۔‘‘

مولانا نے عدالت کو جواب دیتے ہوئے کہا:

’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرزائیوں کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچے گا، لیکن جہاں تک مرزا قادیانی کا تعلق ہے، ہم اس کو ایک بار نہیں، ہزار بار دجال کہیں گے، اس نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی ختم المرسلینی میں اپنی جھوٹی نبوت کا ناپاک پیوند جوڑ کر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  پر کھلم کھلا حملہ کیا ہے۔ اپنے اس عقیدے سے میں ایک منٹ کے کروڑویں حصے کے لیے بھی دست کش ہونے کو تیار نہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مرزا غلام احمد دجال تھا، دجال تھا، دجال تھا۔ میں اسی سلسلہ میں قانون انگریزی کا پابند نہیں۔ میں قانونِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم  کا پابند ہوں۔‘‘

قرآن و حدیث کی روشنی اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  میں ڈوبے ہوئے مولانا ظفر علی خاںؒ کے یہ اشعار آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:

نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی

مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحاؐ کی حرمت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا