Language:

مرزا کادیانی ! ایک خاندانی غدار

انگریز غلام ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں پر ’’جھوٹی نبوت‘‘ کی کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ منصوبہ مکمل ہوچکا تھا۔ انگریز نے ہندوستان سے اپنے چند اہم غداروں کو بلایا۔ انگریز نے انہیں جھوٹی نبوت کے سارے منصوبے سے آگاہ کیا اور انہیںکہا کہ ان میں سے کوئی شخص دعویٰ نبوت کرے۔ یہ بات سن کر غدار کانپ اٹھے۔ وہ فرنگی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے کہنے لگے۔’’جناب ! ہم آپ کے غلام ہیں۔ ہم ضمیر فروش ہیں،ملت فروش ہیں،غیرت فروش ہیں، اپنی دھرتی کا خون پینے والے ، وطن کے مجاہدوں کو غلامی کی زنجیریں پہنانے ،انہیں اذیت ناک سزائیں دلوانے والے ہیں۔ لیکن اس کام کی ہم میں ہمت نہیں۔ اس کے تصور سے ہم جیسے بے ضمیر بھی لرز جاتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت ختم نبوت پر اپنے غلیظ قدم نہیں رکھ سکتے۔ ہم قرآن و حدیث پر تحریف کی قینچی نہیں چلا سکتے۔ یہ کہہ کر بڑے بڑے غدار انگریز کے قدموں پر گر گئیـ‘‘۔

اس صورت حال میںایک کریہہ الصورت اور کاناشخص سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے اور انگریز سے کہتا ہے کہ جناب میںحاضر ہوں۔ جہاں ان غداروں کی غداریوں کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے میری غداریوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کریہہ الصورت شخص نے سرجھکائے غداروں کی طرف پلٹتے ہوئے پھنکا رکر کہا ’’جناب! یہ سب غدارتو ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نسلی غدار نہیں جبکہ میں ایک نسلی اور خاندانی غدار ہوں۔ غداری میرے خون میں شامل ہے۔ غداری میری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ میرا سارا وجود غداری کی کمائی سے پلا ہوا ہے۔ میرا باپ مرزا غلام مرتضیٰ ایک تاریخ ساز غدار تھا۔ میرا بھائی مرزا غلام قادر غداروں کی پیشانی کا جھومر تھا۔ ان کے مرنے کے بعد یہ خدمات اب میرے ذمے ہیں۔ اور میں چوبیس گھنٹے آپ کے اشارہ ابرو پر حاضر ہوں۔‘‘محترم قارئین! آپ نے پہنچانا۔ یہ کریہہ الصورت اور کانا شخص کون تھا؟ یہ فخر غدار اں مرزا قادیانی تھا۔

مرزا قادیانی کے خاندان کی ملت اسلامیہ سے غداری اور انگریز سے وفاداری کے چند ثبوت مرزا قادیانی کی کتب سے بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔

-01اور میرا باپ اسی طرح خدمات میں مشغول رہا۔ یہاں تک کہ پیرانہ سالی تک پہنچ گیا اور آخرت کا وقت آگیا اور اگر ہم اس کی تمام خدمات لکھنا چاہیں تو اس جگہ سما نہ سکیں اور ہم لکھنے سے عاجز رہ جائیں۔ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرا باپ سرکاری انگریز کے مراحم کا ہمیشہ امیدوار رہا اور عندالضرورت خدمات بجا لاتا رہا۔ یہاں تک کہ سرکار انگریز نے اپنی خوشنودی کی چٹھیات سے اس کو معزز کیا اورہر وقت اپنی عطائوں کے ساتھ اس کو خاص فرمایا ۔

  (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 27، 28 روحانی خزائن 8 صفحہ 37، 38 از مرزا قادیانی)

-02       ’’پھر جب میرا باپ فوت ہوگیا، تب ان خصلتوں میں اس کا قائم مقام میرا بھائی ہوا، جس کا نام مرزا غلام قادر تھا اور سرکار انگریزی کی عنایات ایسے ہی اس کے شامل حال ہوگئیں جیسی کہ میرے باپ کے شامل حال تھیں اور میرا بھائی چند سال بعد اپنے والد کے فوت ہوگیا۔ پھر ان دونوں کی وفات کے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلا اور ان کی سیرتوں کی پیروی کی۔ ‘‘                       (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 27، 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 38 از مرزا قادیانی)

-03       میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکاخیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار انگریزی میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی ’’تاریخ رئیسان پنجاب‘‘ میں ہے اور 1857ء میںانہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا اور جب تمون کی گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔ ‘‘

                              (کتاب البریہ صفحہ 3 تا 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 4 تا 6 از مرزا قادیانی)

-04       ’’سب سے پہلے میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہواہے کہ وہ خاندان اول درجہ پر سرکار دولت مدار انگریزی کا خیر خواہ ہے۔‘‘

                                                                               (مجموعہ اشتہارات جلد دوم طبع جدیدصفحہ 188)

-05قارئین کرام! مرزا قادیانی کے خاندان کی انگریز حکومت سے وفاداری کے اعتراف میں برٹش حکومت نے انہیں کئی ایک تعریفی خطوط لکھے۔عکسی ثبوت کے ساتھ ملاحظہ ہو۔

            ’’سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میں ان چٹھیات حکام بالادست کو درج کرتا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکر ہے۔

(1)

نقل مراسلہ (ولسن صاحب) نمبر 352

 جناب مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب رئیس قادیان

(ترجمہ اردو): ’’میں نے تمہاری درخواست کا بغور جائزہ لیا ہے جس نے مجھے تمہاری اور تمہارے خاندان کی ماضی کی خدمات اور حقوق یاد دلا دئیے ہیں۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ برطانوی حکومت کے قیام سے لے کر تم اور تمہارا خاندان یقینا مخلص، وفادار اور ثابت قدم رعایا رہے ہو اور تمہارے حقوق واقعی قابل لحاظ ہیں۔ تمہیں ہر لحاظ سے پرامید اور مطمئن رہنا چاہیے کہ حکومت برطانیہ تمہارے خاندانی حقوق اور خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور جب بھی کوئی سازگار موقع آیا، ان کا خیال کیا جائے گا۔ تم بعینہٖ سرکار انگریزی کا ہوا خواہ اور جانثار رہو کیونکہ اسی میں سرکار کی خوشنودی اور تمہاری بہبود ہے۔‘‘

بتاریخ: 11 جون، 1849ء

(2)

نقل مراسلہ رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور تہور و شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند۔

از آنجاکہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ 1857ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیہ درباب نگاہداشت سواران و بہم رسانی اسپاں بخوبی بمنصۂ ظہور پہنچی۔ اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بجلد دے اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دوصد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری 576 مؤرخہ 10 اگست 1858ء پروانہ ہذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔

مرقومہ: تاریخ 20 ستمبر 1858ء

(3)

نقل مراسلہ فنانشل کمشنر پنجاب

مشفق مہربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہٗ

آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہوا حضور ایں جانب میں گزرا۔

مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا۔ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمھارے باپ وفادار کی، کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمھارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔

المرقوم 29 جون 1876ء راقم سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنرپنجاب‘‘

                                 (کشف الغطاء صفحہ 4 تا 9 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 180 تا 185 از مرزا قادیانی)

            مسلمانو!یہ خاندانی غدار۔ یہ نسلی غدار آج بھی اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف پوری قوتوں سے مصروف ہیں اور یہ لوگ کلیدی اور حساس عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ملک کو تاریک گڑھوں کی طرف لے جارہے ہیں۔

            مسلمانو! ہر قادیانی کا مذہبی عقیدہ ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اکھنڈ بھارت بنے گا اس لئے ہر قادیانی پاکستان کا غدار ہے۔ ہر قادیانی کا وجود پاکستان کے لئے خطرہ ہے۔ جب تک پاکستان میں قادیانی موجود ہیں۔ پاکستان کو استحکام نہیں مل سکتا۔پاکستان میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔پاکستان میں اسلامی نظام قائم نہیںہوسکتا۔پاکستان میں دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔پاکستان بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے نہیں بچ سکتا۔

            کسی گائوں کے کنوئیں میں کتا مرگیا۔ لوگوں نے گائوں کے مولوی صاحب کوماجرا سنایا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کنوئیں کاسارا پانی نکال دو۔ سارا پانی نکال دیاگیا۔پھر لوگ مولوی صاحب کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ سارا پانی نکال دیا ہے اور جو نیا پانی آیا ہے اس میں سے یہ پیالہ بھر کرآپ کے لئے لائے ہیں۔ کہ سب سے پہلے آپ پئیں اورپھر ہمیں پینے کی اجازت دیں۔ مولوی صاحب نے پیالہ منہ کے قریب کیا تودیکھا کہ پیالے میں کتے کے بال تیر رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے پیالہ پرے رکھ دیااور لوگوں سے پوچھا’’تم نے کنوئیں کا سارا پانی نکالا تھاتوکتا تو کنوئیں میں ہی پڑا ہے‘‘۔ کتے کے بارے میں تو آپ نے کچھ کہا ہی نہیں تھا سادہ لوح لوگوں نے جواب دیا۔مولوی صاحب ان کی اس سادہ لوحی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔عزیز مسلمانو! انگریز جاتے ہوئے پاکستان میں ’’قادیانیتـ‘‘ کا کتا پھینک گیا ہے جس سے پورے ملک کی آب وہوا میں بدبو و تعفن پھیلا ہوا ہے۔ ہم بار بار بدبو سے تنگ آکر کنوئیں کا سارا پانی تو نکالتے ہیں لیکن قادیانیت کا کتا نہیں نکالتے۔ ہم ہزار جتن کر لیں جب تک یہ کتا اس کنوئیں سے نہیں نکلے گا پاکستان کی آب و ہوا کبھی صاف نہیں ہوگی۔آئو مسلمانو! اپنے اتحاد کی قوت سے اس کتے کو کنوئیں سے نکال کر برطانیہ کی گود میں پھینک دیں تاکہ کتا اپنے مالک کے پاس واپس چلا جائے اور ہم کتے کی نجاست سے بچ جائیں۔