Language:

مرزا کادیانی بحیثیت طبیب

آنجہانی مرزا قادیانی مدعی نبوت و رسالت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طبیب ہونے کا دعوے دار بھی تھا۔ ”نیم حکیم خطرہ جاں” کی ضرب المثل اس پر پوری طرح صادق آتی تھی۔ شافع محشر حضور نبی کریمۖ کا ارشاد گرامی ہے: ”اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں شفا نہیں رکھی جنھیں تم پر حرام کر دیا گیا ہے۔”مگر مرزا قادیانی جو ادویات استعمال کرتا، ان میں شراب، افیون، بھنگ، دھتورہ جیسی ممنوعہ اور حرام اشیاء وغیرہ کا خوب استعمال ہوتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا قادیانی کا طریقہ علاج کیا تھا؟
(1)
مرزا قادیانی کی علم طب میں دسترس: مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے: ”دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے۔ تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی۔ حضرت مسیح موعود بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے۔ اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے۔”                                                                                                  (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 44 از مرزا بشیر احمد ایم اے)
(2)
کچلہ کونین فولاد: ”مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا:حضرت مسیحِ موعود کے زمانہ میں ایک صاحب جو غالباً ریاست جیند کے رہنے والے تھے، بیمار ہو کر علاج کے واسطے قادیان آئے، اور پیر سراج الحق صاحب کے مکان پر انھوں نے قیام کیا۔ پیر صاحب نے ان کی سفارش حضرت صاحب سے کی کہ یہ بیمار رہتے ہیں۔ حضور ان کے لیے دعا کریں۔ حضور نے ان کے لیے دعا کی تو حضور کو الہام ہوا: ”کچلہ کونین فولاد یہ ہے دوائے ہمزاد”(یعنی کچلہ کھائیں اور قبرستان جائیںاز مئولف)


(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 674 طبع چہارم از مرزا قادیانی)

(3)نیم حکیم، خطرہ جان : مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے اپنی کتاب میں لکھتا ہے:”ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے، بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے۔ پھر جو کوئی شخص مفید بات کہہ دے اس پر بھی عمل کرتے تھے۔ اور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہوا تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے۔ پھر ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے تھے۔ اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میں مدد لیتے تھے۔ غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنا دیتے تھے۔ اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔”                                                                                                (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 270 از مرزا بشیر احمد )
(4)
پیغمبری ادویات: ”ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مفصلہ ذیل ادویات حضرت مسیحِ موعود (مرزا قادیانی) ہمیشہ اپنے صندوق میں رکھتے تھے اور انہی کو زیادہ استعمال کرتے تھے۔ انگریزی ادویہ میں کونین، ایسٹن سیرپ، فولاد، ارگٹ، وائینم اپی کاک، کوکا اور کولا کے مرکبات، سپرٹ ایمونیا، بیدمشک ، سٹرنس وائن آف کاڈلور آئل، کلوروڈین کاکل پل سلفیورک ایسڈ ایرومیٹک۔ سکاٹس ایملشن رکھا کرتے تھے اور یونانی میں سے مشک، عنبر، کافور، ہینگ ، جدوار، اور ایک مرکب جو خود تیار کیا تھا یعنی تریاقِ الٰہی رکھا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ہینگ غربا کی مشک ہے اور فرماتے تھے کہ افیون میں عجیب و غریب فوائد ہیں۔ اسی لیے اسے حکما نے تریاق کا نام دیا ہے۔۔۔”

(سیرت المہدی، جلد سوم صفحہ284 از مرزا بشیر احمدابن مرزا قادیانی)

(5)ممنوعہ چیزیں ”بھنگ دھتورہ افیون” سب جائز: ”ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعود (مرز اقادیانی) نے سل دق کے مریض کے لیے ایک گولی بنائی تھی۔ اس میں کونین اور کافور کے علاوہ افیون، بھنگ اور دھتورہ وغیرہ زہریلی ادویہ بھی داخل کی تھیں اور فرمایا کرتے تھے کہ دوا کے طور پر علاج کے لیے اور جان بچانے کے لیے ممنوع چیز بھی جائز ہوجاتی ہے۔”                                                                                             (سیرت المہدی، جلد سوم صفحہ111 از مرزا بشیر احمدابن مرزا قادیانی)
q
 افیون: افیون دوائوں میں اس کثرت سے استعمال ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فرمایا کرتے تھے کہ بعض اطبا کے نزدیک وہ نصف طب ہے۔۔۔۔۔۔
حضرت مسیح موعود نے تریاق الٰہی دوا خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس کا ایک بڑا جزو افیون تھا اور یہ دوا کسی قدر اور افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ اوّل (حکیم نور الدین صاحب) کو حضور (مرزا قادیانی) چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔
(مضمون میاں محمود احمد صاحب، خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ”الفضل” جلد 17 نمبر 6 صفحہ 2 مورخہ 19 جولائی 1929ئ)
(6) ”مجھے بچپن میں بیماری کی وجہ سے افیون دیتے تھے۔ چھ ماہ متواتر دیتے رہے۔”

(”منہاج الطالبین” صفحہ 74، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 220، از مرزا بشیر الدین محمود)

qسنکھیا: ”جب مخالفت زیادہ بڑھی اور حضرت مسیح موعود کو قتل کی دھمکیوں کے خطوط موصول ہونے شروع ہوئے تو کچھ عرصے تک آپ نے سنکھیا کے مرکبات استعمال کیے تاکہ خدانخواستہ آپ کو زہر دیا جائے تو جسم میں اس کے مقابلے کی طاقت ہو۔”

(ارشاد میاں محمود احمد، خلیفہ قادیان، اخبار ”الفضل” قادیان، جلد 22، نمبر 99، صفحہ 4، مورخہ 5 فروری 1935ئ)


q
طب کے نام پر شراب نوشی ٹانک وائن کا فتویٰ:” آپ تمام تمام دن تصنیفات کے کام میں لگے رہتے تھے۔ راتوں کو عبادت کرتے تھے۔ بڑھاپا بھی پڑتا تھا تو اندریں حالات اگر ٹانک وائن بطور علاج پی بھی لی ہو تو کیا قباحت لازم آ گئی۔”
(از ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی، فریق لاہوری، مندرجہ اخبار ”پیغام صلح” جلد 23، نمبر 15، مورخہ 4 مارچ 1935ئ، جلد 23، نمبر 65، مورخہ 11 اکتوبر 1935ئ)
(7)
حالتِ مردمی: ”ایک ابتلا مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا، اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا، میری حالتِ مردمی کالعدم تھی، اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی۔ اس لیے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا کہ آپ بباعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے۔”

(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 98، 99 طبع چہارم از مرزا قادیانی)

(8)قادیانی ویاگرا: ”ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حافظ حامد علی صاحب خادم حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب نے دوسری شادی کی تو ایک عمر تک تجرد میں رہنے اور مجاہدات کرنے کی وجہ سے آپ نے اپنے قویٰ میں ضعف محسوس کیا۔ اس پر وہ الہامی نسخہ جو ”زدجام عشق” کے نام سے مشہور ہے، بنوا کر استعمال کیا۔۔۔نسخہ زدجام عشق یہ ہے جس میں ہر حرف سے دوا کے نام کا پہلا حرف مراد ہے۔
زعفران، دار چینی، جائفل (جند بید ستر) افیون، مشک، عقر قرحا، شنگرف، قرنفل یعنی لونگ، ان سب کو ہم وزن کوٹ کر گولیاں بناتے ہیں اور روغن سم الفار میں چرب کر کے رکھتے ہیں اور روزانہ ایک گولی استعمال کرتے ہیں۔”

(سیرت المہدی، جلد سوم صفحہ50،51 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)

(9)داماد اور قوت باہ: ”مجی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ! السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ!
کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اور کسی قدر اس وقت دے دوں گا جب آپ قادیان آئیں گے۔ یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بہت بڑھ کر ہے…………
خوراک اس کی اول استعمال میں دو رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تاکہ گرمی نہ کرے۔ نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذیابیطس اور انواع و اقسام کے خطرناک امراض کے لیے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کا ایک عجیب اثر ہے۔” (خاکسار مرزا غلام احمد 29 اگست 1899ئ)
(مرزا قادیانی کا اپنے داماد نواب محمد علی کے نام، مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 250 از مرزا قادیانی)
(10)
”دست شریف” میں دودھ کا استعمال: ”دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ ادھر دودھ پیا اور ادھر دست آ گیا۔ اس لیے بہت ضعف ہوتا جاتا تھا۔ اس کے دور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 134 از مرزا بشیر احمد ایم اے)

(11)تریاق الٰہی؟: ”ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے طاعون کے ایام میں ایک دوائی تریاق الٰہی تیار کرائی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک بڑی تھیلی یاقوتوں کی پیش کی۔ وہ بھی سب پسوا کر اس میں ڈلوا دیے۔ لوگ کوٹتے پیستے تھے۔ آپ اندر جا کر دوائی لاتے اور اس میں ملواتے جاتے تھے۔ کونین کا ایک بڑا ڈبہ لائے اور وہ بھی سب اسی کے اندر الٹا دیا۔ اسی طرح وائینم اپی کاک کی ایک بوتل لا کر ساری الٹ دی۔ غرض دیسی اور انگریزی اتنی دوائیاں ملا دیں کہ حضرت خلیفہ اوّل فرمانے لگے کہ طبی طور پر تو اب اس مجموعہ میں کوئی جان اور اثر نہیں رہا۔ بس روحانی اثر ہی ہے۔”                                     (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 218 از مرزا بشیر احمد ایم اے)
(12)
کھانسی کا علاج:”ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی، تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔”                                                                                         (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 103 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)
(13)
گنے سے کھانسی کا علاج: ”سفر گورداسپور میں 1903ء میں ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی کی شکایت تھی۔ میں نے عرض کی کہ میرے والد مرحوم اس کا علاج گرم کیا ہوا گنا بتلایا کرتے تھے۔ تب حضور کے فرمانے سے ایک گنا چند پوریاں لے کر آگ پر گرم کیا گیا اور اس کی گنڈیریاں بنا کر حضور کو دی گئیں اور حضور نے چوسیں۔”
(ذکر حبیب صفحہ 111 از مفتی محمد صادق قادیانی)
(14)
پھوڑے کا علاج: ”حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے ٹخنے کے پاس پھوڑا ہوگیا تھا۔ جس پر حضرت صاحب نے اس پر سکہ یعنی سیسہ کی ٹکیا بندھوائی تھی جس سے آرام آگیا۔”          (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 28 از مرزا بشیر احمد)
(15)
بال بڑھانے کی دوا: ”آخری عمر میں حضور کے سر کے بال بہت پتلے اور ہلکے ہو گئے تھے۔ چونکہ یہ عاجز ولایت سے ادویہ وغیرہ کے نمونے منگوایا کرتا تھا۔ غالباً اس واسطے مجھے ایک دفعہ فرمایا۔ مفتی صاحب سر کے بالوں کے اگانے اور بڑھانے کے واسطے کوئی دوائی منگوائیں۔”                                                                                                         (ذکر حبیب صفحہ 172,173 از مفتی محمد صادق قادیانی)
(16)
مفت بر: ”السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!
جزاکم اللّٰہ خیراً کثیرا فی الدنیا والآخرة۔ دوا پہنچ گئی۔ ایک اشتہار بالوں کی کثرت کا شاید لندن میں کسی نے دیا ہے، اور مفت دوا بھیجتا ہے۔ آپ وہ دوا بھی منگوا لیں تاکہ آزمائی جائے۔ لکھتا ہے کہ اس سے گنجے بھی شفا پاتے ہیں۔ والسلام” مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ”
(ذکر حبیب صفحہ 360 از مفتی محمد صادق قادیانی)
گھر والے بھی مرزا قادیانی کی طبابت پر یقین نہ رکھتے تھے اور دوسروں سے علاج کرواتے تھے اس کا کچھ ثبوت مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم اے کی کتاب سیرت المہدی کی جلد سوم صفحہ 234 پر ملتا ہے ،اور جب کوئی طبیب نہ ملتا تو پھر مجبوراً وہ مرزا قادیانی سے علاج کرواتے۔ اور مرزا قادیانی کیا علاج کرتا تھا، ملاحظہ فرمائیں:
(17)
مرغا ذبح کر کے…: ”حضرت والدہ صاحبہ یعنی ام المؤمنین اطال اللہ بقائہا نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا، جس کا دماغ پر بھی اثر تھا۔ اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی اور آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا۔ علاج یہ تھا کہ آپ نے مرغا ذبح کرا کے سر پر باندھا، جس سے فائدہ ہو گیا۔ ”                                                                                                                 (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 27 از مرزا بشیر احمد ایم اے)
زیادہ بہتر تھا زندہ مرغ ہی سر پر بندھوا دیتے تاکہ بے چارے مرغ کی جان تو بچ جاتی…… نیز اس بہانے مرزا نظام الدین کی سماعتیں مرغ کی بانگ سے بھی مستفیض ہوجاتیں۔ قربان جائیں ایسی طبابت پر!بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبیست