Language:

مرزا کادیانی کی تحریف قرآن کا ایک نمونہ

قرآن کے ارشاد  اولی الامر منکم سے مراد…… انگریز حکمران

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کو ارشاد ہے:

’’اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔‘‘ (النسائ:59)

(ترجمہ): ’’اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی، اور اطاعت کرو رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی اور حاکموں کی جو تم میں سے ہوں۔‘‘

مرزا قادیانی نے اس آیت کی تشریح میں لکھا:

(1)        ’’جسمانی سلطنت میں بھی یہی خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک قوم میں ایک امیر اور بادشاہ ہو اور خدا کی لعنت ان لوگوںپر ہے جو تفرقہ پسند کرتے ہیں اور ایک امیر کے تحت حکم نہیں چلتے۔ حالانکہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے۔ اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔ اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے۔ اسی لیے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔‘‘

(ضرورۃ الامام صفحہ 23 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 493 از مرزا قادیانی)

قرآن مجید نے تو خدا، رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور جماعت مومنین میں سے ان حکام کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے جنہیں کچھ اختیارات تفویض کیے گئے ہوں۔ لیکن مرزا قادیانی نے قرآن کریم کی معنوی تحریف کرکے کفار کی اطاعت کو فرض قرار دے دیا۔ مرزا قادیانی سے تو جرمنی کا مشہور و معروف شاعر گوئٹے بھی قرآن دانی میں کہیں آگے تھا اور اس کی سوچ اسلام کے مطابق تھی۔ مرزا قادیانی اپنے دعویٰ نبوت کے باوجود انگریز کی اطاعت کے شرک میں سرتاپا غرق تھا لیکن گوئٹے نے جب قرآن حکیم پڑھا تو بے اختیار پکار اٹھا ’’اس کا پڑھنے والا کبھی کسی کا غلام نہیں ہوسکتا۔‘‘

مرزا قادیانی نے قرآنی آیت کا صرف اتنا حصہ لیا جس کو وہ توڑ مروڑ سکتا تھا اور آیت کے اس حصے کو چھوڑ دیا جو اس کی مذکورہ تحریف کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیتا ہے۔ پوری آیت یہ ہے:

’’یاایھا الذین امنوا اطیعوا للّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر  نکم ج  فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللّٰہ والیوم الاخرط ذلک خیر و احسن تاویلاo (النساء : 59)

ترجمہ: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو (اپنے ذیشان) رسول کی اور حاکموںکی جو تم میں سے ہوں پھر اگر جھگڑنے لگو تم کسی چیز میں تو لوٹا دو اسے اللہ اور (اپنے) رسول (کے فرمان) کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ پر اور روزِ قیامت پر یہی بہتر ہے اور بہت اچھا ہے اس کا انجام۔‘‘

آیت کا خط کشیدہ فقرہ مرزا قادیانی کمال عیاری سے چھوڑ گیا کیونکہ یہ وہ ہڈی تھی جو اس کے حلق سے اتر نہ سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انگریز اولی الامر تھے تو ان سے نزاع کی صورت میں کس کی طرف رجوع کیا جاتا؟ ظاہر ہے کہ انگریز تو مسلمانوں کے خدا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے نہیں تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کے خدا اور رسولؐ کی طرف تو رجوع ہو نہیں سکتا تھا۔ شاید ایسی صورت میں مرزا قادیانی کے ذہن میں خدا اور رسول سے مراد ملکہ برطانیہ اور سیکرٹری آف سٹیٹ ہوں کیونکہ انگریز کی حکومت میں تو انہی کی طرف رجوع ہوسکتا تھا۔

؎          شورش فقیہہ شہر کے چہرے کی ’’آب و تاب‘‘

قرآن کی آیتوں کے لہو کی دلیل ہے

انگریز کا عہد سیاسی شرک کا دور تھا کیونکہ انگریز کی حکومت غیر اللہ کی حکومت تھی۔ انگریز کو اولی الامر میں داخل کرنا قرآن حکیم کی وہ بدترین تحریف ہے جس سے برا تغیر و تبدل شاید یہودیوں نے بھی توریت میں نہ کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے اس قدر بے خوفی…؟ نبوت تو کجا اس دیدہ دلیری کے ساتھ تو مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی میل نہیں کھاتا۔ اﷲ رب العزت مرزا قادیانی کے فریب میں پھنسے ہوئے انسانوں کا راہ حق پر آنا آسان کریں ۔