Language:

مرزا کادیانی اور عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ

1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزی استعمار اپنے تمام مظالم، جبر و استبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے سامنے سپر انداز ہو گیا تھا۔ انگریزوں کی پریشانی کا اندازہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (W.W.Hunter) کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ (THE INDIAN MUSALMANS) سے لگایا جا سکتا ہے۔

 انگلستان گورنمنٹ نے 1869ء کے اوائل میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جا سکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جا سکتا ہے؟ ہندوستانی عوام اور بالخصوص مسلمانوں میں، وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے؟ برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیا۔ اسی سال وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا، جس میں ہندوستانی مشنریز کے اہم پادری بھی تھے۔ کمیشن کے سربراہ سرولیم نے بتایا:

            ’’مذہبی نقطہ نظر سے مسلمان کسی دوسری قوم کی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے حالات میں وہ جہاد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ جوش کسی وقت بھی انھیں ہمارے خلاف ابھار سکتا ہے۔‘‘

اس وفد نے “The Arrival of British Empire in India” (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انھوں نے لکھا: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

انگلستانی وفد کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

REPORT OF MISSIONARY FATHERS

Majority of the population of the country blindly follow their “Peers” their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a Zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally round him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved, the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors.

(Extract from the Printed Report. India Office Library, London)

ترجمہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنمائوں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلی نبوت (حواری نبی) کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے،

                                                                        (مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس: انڈیا آفس لائبریری، لندن)

اس بد ترین کام کو سرانجام دینے کے لئے مرزا قادیانی نے حامی بھر ی ۔ کیونکہ مرزا اقادیانی جدی پشتی انگریز کا نمک خوار تھا اس لئے انتخاب میں دیر نہ لگی ۔

جہاد کو حرام قرار دینے کیلئے مرزا قادیانی کا طریقہ واردات  :

مرزا قادیانی نے جہاد کو کس طرح حرام قرار دیا اس بات سے پہلے سمجھنا ضروری ہے کہ اسلامی عقائد میں یہ عقیدہ تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ حیات عیسی علیہ السلام کا انکار کر دینے والا مسلمان نہیں رہتا ۔قرآن و حدیث میں ان کی کئی ایک نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ ان نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ کوئی شخص کافر نہ رہے گاسب اسلام پر آجائیں گے ۔اسی وجہ سے اسلام کے تشخص پر عسکری مہمات کرنے والی کوئی طاقت ہی نہ رہے گی لہذا جہاد ختم موقوف ہو کر رہ جائے گا۔

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم  کی حدیث مبارکہ ہے:

            حدثنا اسحق قال اخبرنا یعقوب بن ابراھیم قال حدثنا ابی صالح عن ابی شھاب ان سعید بن المسیب سمع ابوھریرہرضی اﷲ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد حتٰی تکون السجدۃ الواحدۃ خیر من الدنیا وما فیھا۔ ثم یقول ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ فائروان شئتم و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ۔ (بخاری و مسلم)

(ترجمہ) حضرت ابوہریرہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یقینا ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل ہو کر اتریں گے، پس صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، اور جنگ ختم کردیں گے، مال کی اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ دنیا اور دنیا بھر کے سب مال و متاع سے ایک سجدہ (قدر و قیمت کے لحاظ سے) اچھا معلوم ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ اگر تم نزول عیسیٰ علیہ السلام کی دلیل اس ارشاد نبوی کے ساتھ قرآن سے چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’ان من اھل الکتاب الا لیٔومنن بہ قبل موتہ‘‘ کیونکہ اس میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جتنے اہل کتاب ہیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔

اس حدیث کی غلط اور من گھڑت تاویل کرتے ہوئے آنجہانی مرزا قادیانی نے انگریز کی شہ پر اپنے عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ وہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام تو فوت ہو گئے اور میں وہ عیسیٰ ہوں جس کا وعدہ کیا گیا ہے ، میرے آنے سے جہاد کی فرضیت ختم ہوگئی ہے۔ حالانکہ حدیث مبارکہ میں ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے آنے کا ذکر ہے جبکہ مرزا قادیانی ابن چراغ بی بی ہے۔ ابن مریم سے چراغ بی بی مراد لینا قادیانی تاویلات کی ادنیٰ مثال ہے۔مرزا قادیانی نے کہا:

            ’’میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیشگوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ (ضمیمہ) صفحہ 118 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 295 از مرزا قادیانی)

            ’’میں بھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے۔‘‘    

                                                                    (دافع البلاء صفحہ 22 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 238 از مرزا قادیانی)

            ’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے۔‘‘                                                                             (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 526 طبع جدید از مرزا قادیانی)

لہذا

            ’’اب سے زمینی جہاد بند ہوگیا ہے او ر لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لیے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو آج سے دین کے لیے لڑنا حرام کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو دین کے لیے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتا ہے، وہ خدا اور اس کے رسُولؐ کا، نافرمان ہے۔ صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنی یضع الحرب جس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 408 طبع جدید از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی اور اس کے جانشینوں کی مستند تحریروں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیں امت مسلمہ کے ماضی سے کوئی عقیدت ہے نہ اس کے حال سے کوئی دلچسپی۔ مستقبل کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ ہماری اور ان کی امنگوں میں کوئی یکسانیت ہے نہ یکجہتی۔ ملت اسلامیہ کے دشمنوں کو وہ اپنا مربی اور سرپرست سمجھتے رہے۔ جس انگریز نے برصغیر میں اسلامی اقتدار کا چراغ گل کیا، ہماری تہذیبی قدروں کو روندا‘ لاکھوں بے گناہ مسلمانوں اور علمائے کرام کو قتل کیا‘ کیا کسی مسلمان کے دل میں ان دشمنان اسلام کے لیے خیر سگالی کے جذبات پائے جا سکتے ہیں؟ لیکن افسوس ہے کہ مرزا قادیانی ان کے تملق ‘ مدح سرائی‘ دعائیں ‘ خیر سگالی کے جذبات اور ان کے پنجہ استبداد کو مضبوط کرنے کے لیے مسلسل تقریری اور تحریری کاوشیں کرتا رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

  یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعضط ومن یتولھم منکم فانہ منھم ط ان اللّٰہ لا یھدی القوم الظلمینo (المائدہ: 51)

ترجمہ:   ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو۔ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو شخص انہیں اپنا دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘

اس قرآنی تعلیم کے برعکس یہود و نصاریٰ سے دوستی، ان کی پرجوش حمایت اور جہاد کی ممانعت کے سلسلہ میں مرزا قادیانی کی بے شمار تحریروں میں سے صرف ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ وہ اسلام دشمنی میں کس طرح اپنے جذبات اور خدمات کے لیے ان کی ایک نگاہ التفات کے لیے بے تاب تھا۔

’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی، وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے۔‘‘            

(ستارہ قیصرہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114 از مرزا قادیانی)