Language:

مرزائے قادیان کی انگریز کے ساتھ ساز باز – پروفیسر محمد منور ڈائیریکٹر اقبال اکیڈمی

آج ہم جب کہتے ہیں کہ مرزائے قادیان نے انگریز کے ساتھ سازباز کی تو قادیانی حضرات فورا ً اتردید کرتے ہیں، لیکن اگر وہ خود مرزائے قادیان کی اپنی تحریریں اس ضمن میں دیکھ لیں تو بہت سوں کے دل ہل جائیں۔۔۔۔قادیانی امت کے اکثر افراد کو مرزا غلام احمد کے بارے میں ’’مرکز‘‘ کی طرف سے جو کچھ شائع شدہ ملتا ہے، وہ بہت کچھ صاف کرنے کے بعد تقسیم ہوتا ہے۔ جارج برنارڈ شا نے ایک جگہ لکھا ہے:           “A Saint is a dead rogue,  revised and edioted.”

کم از کم مرزائے قادیان کے بارے میں تو یہی ہو رہا ہے۔ قادیانی امت کے افراد بیچارے اکثر مخلص لوگ ہیں، جو اسلام کے نام پر فریب کھائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔وہ تو اسی نقارے کو سن سن کے بہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ مرزائی علماء اور مبلغین خوب خوب اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور حق یہ ہے کہ خود ان نام نہاد علماء اور مبلغین میں سے بھی بھاری اکثریت اسی طرح کے مرزا غلام احمد کو جانتی ہے جس طرح ’’مرکز‘‘ نے ان کی اگاہی یا علم کا اہتمام کیا، اور پھر ان میں سے غالب اکثریت رفتہ رفتہ پیٹ کی لپیٹ میں آ کے عاجز ہو کر رہ جاتی ہے،  مزید برآں یہ کہ ہرقادیانی اس طرح معاہدوں اور تمسکوں میں بندھ جاتا ہے کہ ہل نہیں سکتا۔ تم مزید برآں یہ کہ ہر قادیانی اپنی اور اپنی اولاد کی شادیوں کے باب میں بھی اس طرح مقید ہو کر رہ جاتا ہے کہ خواہ اندر سے زندگی کے کسی مرحلے پر اس کو حقیقت سے آگاہی ہو بھی جائے تو وہ پھڑک نہیں سکتا۔ وہ گستاخی کرے تو گھر اس کا نہیں رہتا، وہ گستاخی کرے تو اس کا بیٹا اور بھائی بہن جہاں پھنسے ہوتے ہیں وہ بے بس نظر آنے لگتے ہیں ۔۔۔یہی نہیں جان خطرے میں پڑ جاتی ہے، ہم نے خود بعض ایسے دل جلوں کی باتیں سنی ہیں، لیکن ضعف ایمان کے باعث جن خطرات کا نقشہ ان کے سامنے ہوتا ہے، وہ بغاوت نہیں کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے بغاوت کی وہ بہت تھوڑے ہیں۔۔۔۔یا تو وہ زور دار برادری والے ہوں یا ان کو کسی مضبوط گروہ یا جمیعت کی سرپرستی میسر آجائے، ورنہ عاجز ہو کر پٹ کر اور مارکھا کر واپس اسی بھورے میں دھنس جائیں۔۔۔۔۔۔اور قادیانی امت کا ایک فرد کہلاتے ہوئے رحلت فرماجائیں۔

ملک محمد جعفر ، جو جنرل اختر ملک اور جنرل ملک عبد العلی کے بھائی بند تھے، قادیانیت سے تائب ہوئے تو انہوں نے مجبورین قادیانیت کی حالت زار کو واضح کرنے کیلئے ایک کتاب لکھی، جو بڑی مدلل تھی اور در حقیقت وہ ایک خط تھا جو ان کے اپنے قادیانی عزیزوں کے نام تھا، جو قادیانیت کے جال میں کئی کئی طرح پھنس کر رہ گئے تھے۔ یہ ملک جعفر وہی ہیں، جنہوں نے اٹک میں وکالت شروع کی، پھر لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے رہے، پھر پیپلز پارٹی کی بھٹو وزارت میں وزیر داخلہ بھی رہے۔ ان کی کتاب ’’جو بیچارے مقید قادیانی علماء اور مبلغین کی دردمندانہ ترجمانی کرتی ہے، اب لائبریروں سے غائب ہے ۔ مرزا شفیق نے ’’شہر سدوم‘‘ لکھی، پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے، پھر وہ کتاب بھی غائب اور شفیق مرزا بھی ملاقاتیوں سے کنارہ کش، ان کے عزیزوں پر اور خود ان پر اہل ربوہ کے ہاتھوں جو گزری، وہ ہم نے اپنے کئی دوستوں کی موجودگی میں ان کی زبان سے اپنے کانوں سے سنی۔ اسی طرح ہمارے کرم فرما مرزا محمد حسین، جو مرزا محمود احمد کی بچیوں کے ٹیوٹر تھے، سالہا سال دارالخلافت قادیان میں نہیں بلکہ بیت الخلافت میں رہے، پھر جب مرزا محمود احمد کے بارے میں اپنی شاگردوں کی زبانی سنی جانے والی باتوں پر یقین آ گیا تو صدمے سے ایک رات کے اندر گنجے ہو گئے، کہا کرتے تھے، میرے ننھیال ددھیال میں گنجے نہیں پائے جاتے ہیں۔ ایک رات میں فلاں حقیقت سے بالیقین آگاہ ہو کر میں گنجا ہو گیا ۔

جیسا کہ پہلے عرض ہوا قادیانی امت کے اکثر افراد کو واقعہ خبر نہیں کہ قادیانیت کیا ہے۔ وہ تو خانودائہ غلام احمد کی ظاہری اسلام داری پر مرے جارہے ہیں، اور عقیدت و ایثار میں اس طرح بندھ گئے ہیں کہ اب سچ سن نہیں سکتے، اگر سچ ان تک پہنچ جائے تو ان کی کتنی دل شکسی ہو، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔۔۔۔۔درحقیقت قادیانی امت ایک مالی اور سیاسی کمپنی ہے، جس پر دین کا رنگ و روغن چڑھایا گیا ہے اور اس کمپنی کی دولت اور وجاہت کا مالک خانوادئہ غلام احمد قادیانی ہے۔ عام قادیانی اس رنگ و روغن پرفریفی فریفۃ ہے، اندر کیا ہے، حقائق کیا ہیںَ؟ اس سے محض اندرونی حلقہ واقف ہوتا ہے اور اندرونی حلقہ بڑے ہی استاد اور فن کا رافراد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ افراد ایمان کی نمائش کرنے والے عیاش لوگ ہوتے ہیں، جو زر کے بت پوجتے ہیں، جن کے آگے بھی ہوس ناچتی اور پیچھے بھی۔

آپ کو حسن بن صباح کی امت کے احوال معلوم ہوں۔ اس کے فدائی قادیانی فدائیوں سے بھی آگے تھے۔  بہرحال حسن بن صباح کی تحریک کی اصلیت تاریخ میں مرقوم ہے، یہ الگ بات ہے اس کی اولاد آج مہذب روپ اختیار کر کے اور علم و تحقیق میں نام پیدا کر کے اپنا کام دوسرے طریق پر کر رہی ہے۔۔ اب خنجر نہیں، اب دیگر ہتھیار ہیں مگر شکار بہر طور امت مسلمہ ہے اور روح اسلام۔ اسی طرح مرزائے قادیان کے گرد ایک حلقہ تھا، جو حقیقت کو جانتا تھا، بلکہ اس سالوسی حقیقت کی تعمیر میں شریک مستعد تھا۔ اس حلقے کے افراد کو معلوم تھا کہ حسن بن صباح کے داعیوں کی طرح تقدس اور پاک بازی کا لبادہ اوڑھ کر روحوں کو کس طرح لوٹنا ہے۔ وہ اندرونی حلقہ اب بھی قائم ہے۔ کیا نورالدین اور اس کے عزیزوں کو نہیں معلوم کہ اصلیت کیا ہے؟ کیا ظفر اللہ خاں چودھری اور اس کے ہم ہوس اور ہم نفس یاروں کو نہیں معلوم کہ وہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟ کیا مرزا محمود احمد اور اس کی اولاد کو نہیں معلوم کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کی کیا کیا خدمت کر رہے ہیں؟ مگر عام قادیانی تو باطنی داعیوں کی طرح اندھا دھند فدا ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔باطنی تنظیم کی طرح ان کی تنظیم بھی بڑی مستحکم ہے، بڑا وقت نکال جائے گی۔۔۔حسن بن صباح کے مہذب وارث ہیروں اور موتیوں میں تل رہے ہیں۔ لاکھوں جانوروں اور روحوں پر حکومت کرتے ہیں۔ اسی طرح مرزا غلام احمد کے تقدس ماب پاکیزہ سرشت وارث سونے اور جواہرات میں تلتے رہیں۔ دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنے سالوس و زور کے زور پر عیش کرتے ہیں۔ ان کا کمال فن لائق داد ہے اور ان کے سادہ دل فدائیوں کی سادگی لائق ہمدردی۔۔۔۔جرمن فلاسفر نطشے نے لکھا تھا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک وہ ہونق پیدا نہ ہوجائے جس کو کوئی عقیدت مند نہ ملے۔۔۔۔۔

ایک بھارتی فنکار الوہی قوتوں کا مظہر بن گیا۔ دنیا بھر میں مرید پیدا کر لیے۔ امریکہ میں خصوصاً ایک بہت بڑا مرکز قائم کیا۔ نام رجنیش بابا تھا خوب عیاشی کی مگر کمبخت کو کوئی اندرونی حلقہ بنانے کی نہ سوجھی، کوئی نورالدین اور چودھری ظفر اللہ خان اس کو بھی مل جاتا تو وہ اور اس کی تحریک صباحیوں اور قادیانیوں کی طرح بڑا وقت نکال جاتی ۔ یہ رجنیش بابا شاید 1991میں مرا، اب بھی امریکہ اور بھارت میں اس کے فدائی چیلے بے شمار موجود ہیں۔ اسی طرح بمشکل ایک سال ہونے کو ہے کہ ایک شخص حضرت عیسیٰ ؑ کا بروز بن کر امریکہ میں اٹھا۔ نام کریش تھا۔ اس پر ایمان لانے والے اس کی خاطر جانوں پر کھیل گئے۔ اگر اس کے کاروبار کا مہتمم بھی کوئی ذہین اندرونی حلقہ ہوتا تو وہ اتنی جلدی بھسم نہ ہوتا، شعبدہ باز تو یہاںوہاں موجود ہیں، دنیا بھر میں ہیں، عالم اسلام میں تو روحانی پیشوائیت کے پردے میں یہ ناٹک یہاں وہاں عام کھیلا جا رہا ہے اور اس ناٹک کے ذریعے زندگی کو عیاشی کا زیور پہنانے والے کلچر اڑا رہے ہیں۔ شکار ہونے والے ضروری نہیں کہ ان پڑھ ہوں، اور شکار کرنے والے ضروری نہیں کہ بہت ہی پڑھے لکھے لوگ ہوں، یہ کاروبار ایک عجیب کاروبار ہے، جس میں روحانی اور طفری تقاضے گمراہ ہو کر غلط پٹڑی پر پڑ جاتے ہیں۔ احمق مقتدی، اور عالم و فاضل مقتدی، علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا۔   ؎

در طلبش دل تپید دیر و حرم آفرید                   ما بہ تمنائے او او بہ تماشائے ما

معنی ہے:۔ (خدا کی تلاش میں دل بے تاب ہوا، لہذا تسکین کی خاطر اس نے عبادت گاہیں اور عقیدت کدے پیدا کر لئے۔ ہم نے یہ سب کچھ خدا کی تمنا اور اشتیاق میں کیا اور خدا ہماری اس بے تابی کے باعث ہماری ٹامک ٹوئیوں کا تماشا دیکھتا رہا)۔ آخر یہ تو ایک حقیقت ہے اور ناقابل تردید حقیقت کہ آدمی کے روحانی تقاضے، جسمانی بھوک کی طرح تشفی اور تسکین چاہتے ہیں۔ پھر جس طرح آدمی جسمانی تقاضے صحیح طور پر بھی پورے کرتا ہے اور غلط طور بھی بالکل اسی طرح وہ اپنے روحانی تقاضے بھی ہر دو طرح پورے کر لیتا ہے۔ بت پرستی ذوق عبودیت ہی کی تسکین کی کوشش ہے۔ وہ جو ہدایت پا گئے، وہ اللہ کی عطا کردہ وحی کے مطابق چلے اور عبادت خداوندی اور ذکر الہیٰ اور اطاعت اوامر کے باعث اطمینان کی دولت پانے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔بصورت دیگر ، گمراہ ہو گئے۔ بت پوجنے والا کون شخص ہے؟ وہی جو اندر کی بھوک مٹانا چاہتا ہے۔ وہ عبادت بہ تقاضائے فطرت کرتا ہے، وہ مجبور ہے اس پر لیکن بے تابی میں گمراہ ہوجاتا ہے یا اہل ہوس کے ہتھے چڑھ کر گمراہ ہو جاتا ہے اور یہ گمراہ کرنے والے اشخاص اپنے اپنے دور کے مذہبی تقدس والے نمائشی لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ اندرونی بھوک مٹانے والا فرد ہر قسم کا ہو سکتا ہے، کسان بھی، مزدور بھی، بادشا ہ بھی، وزیر بھی، پڑھا لکھا بھی اور ان پڑھ بھی ۔ کسی غلط راستے پر پڑھے لکھے جا رہے ہوں تو محض ان کو دیکھ کر یہ فرض نہیں کر لینا چاہیے کہ فلاں راستے پر چونکہ پڑھے لکھے جا رہے ہیں، لہذا وہ صراط مستقیم ہے۔ عام لوگ بارہا خواص کی گمراہی کے باعث گمراہ ہو جاتے ہیں۔ پڑھا لکھا ہونا اور معاملہ ہے نورایمان کا مالک ہونا جدا مسئلہ ہے۔

پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک آدمی، جو دینوی علوم میں سے بعض علوم پر حاوی ہو، وہ روحانی اور دینی امور پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ علم کی ایک کھڑکی کھلی ہو تو آدمی بحرالعلوم نہیں ہوجاتا، ابو نواس بغدادکا مشہور شاعر گزرا ہے، اس کا ہم عصر ایک شخص نظام تھا، جو معتزلہ کے گروہ کافرد تھا اور فلسفے کے زور پر علامہ بنتا اور بہت دلیل بازی کرتا تھا۔ اس سے اشاریہ خطاب کر کے ابو نواس نے کہا تھا۔ ’’مراد ہے، اس شخص سے کہہ دو جو فلسفے کی بنا پر علم پر حاوی ہونے کا دعوے دار ہے کہ تم نے ایک شے یاد رکھی لی، اور پالی مگر بہت سی اشیاء تمہاری نظروں سے اوجھل رہیں(یا اوجھل ہو گئیں)‘‘۔

ہمارے یہاں یا یوں کہیے کہ امت مسلمہ میں عموماً پڑھے لکھے لوگوں کی فیصد تعداد کیا ہے؟ اور پھر ان میں جو دین میں راسخ ہوں، وہ کتنے ہیں؟ علاوہ ازیں یہ بات پھر وہیں کی وہیں رہتی ہے کہ دینی علم یا امور شریعت سے آگاہ ہونے کے باوجود کتنے لوگ ہیں جن کا ایمان پختہ ہے، جن کے بارے میں یقین ہو کر وہ لالچ یا خوف میں مبتلا ہو کر غلط راہ قبول نہیں کر لیں گے۔ گمراہی کے اسباب گنے نہیں جا سکتے، اور جو لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں، وہ روز بروز اپنی گمراہ برادری میں پھنستے اور کھبتے چلے جاتے ہیں۔ تجارت کا معاملہ رشتوں کا معاملہ نوکری کا معاملہ، نوکری میں ترقی کا معاملہ، بیرونی علمی وظائف کا معاملہ، ایکسپورٹ امپورٹ کا معاملہ اور پھر اپنی برادری کے بڑھنے سے اپنی وقت کے پھیلنے کے احساس کا معاملہ ۔۔۔۔۔مراد ہے کوئی ایک چکر نہیں زرایمان کمزور ہو تو دل میں بے شمار گمراہ کن واہمے ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔۔۔۔خانہ خالہ را ویومی گیرو، ویران گھر جن بھوت کا مسکن بن جاتا ہے، مضبوط ایمان سے خالی دل بھی ہوس کی مختلف بلائوں میں گرفتار ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے قادیانی عزیز قابل رحم لوگو ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جو ضعف ایمان کے باعث گرفتار ہوس ہوئے اور اب اسی ضعف ایمان کے باعث اس پھندے سے نکل نہیں سکتے، اصل رشتہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے باقی سب دردغ ،علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا۔  ؎

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند                 بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ