Language:

مرزائیوں قادیانیوں سے کسی قسم کا تعلق جوڑنا چاہیے یا نہیں (مولانا عبدالرحمن صاحب مظفر گڑھی)

نحمدہ و نصلی علی روسلہ کریم:بعد حمدو صلوۃاور بسم اللہ کے گزارش ہے کہ بہت سے احباب نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ مرزائیوں/قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا،انکی خوشی غم میں شریک ہونا ،انکے ساتھ دوستی پیار کرنا ،انکی دکانوں/بیکریوں سے سودا خریدنا، انکے ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لئے اپنے مریضوں کو داخل کرانا، انکی ویگنوں/بسوں میں سفر کرنااور کسی قسم کا تعلق رکھنا جوڑناچائیے یا نہیں؟
جواباً عرض ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا آج تمام کافر اور جنہیں معاف کرنا چائیں معاف کر دیںمگر ایک کافر وہ ہے جسے آپ نے معاف نہیں کرنا بیشک وہ خانہ کعبہ کے اندر کیوں نہ داخل ہو جائے وہاں بھی اسے قتل کر دیا جائے اس واسطے کہ میرے حبیب وہ آپکی حجو کیا کرتا تھا آپکی توہین میں اشعار اورنظمیںکہا کرتا تھا اس واسطے اسے قتل کر دیا جائے۔گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ پاک کا یہی فیصلہ ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اسے ماننے والے تمام مرزائی /قادیانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جو کچھ لکھا ہے اسے مرزائی /قادیانی اس طرح ہی مانتے ہیں جس طرح ہم لوگ قرآن و حدیث شریفین کو مانتے ہیں۔مرزاغلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں لکھتا ہے…”مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تیئں نکاح سے روکا اور پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ،گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیونکر ناحق توڑا گیا اور تعدادازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجودیوسف نجار(تر کھان)کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہو ئی کہ یوسف نجار (ترکھان)کے نکاح میں آوے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں ہیںجو پیش آگئیں۔اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراضـ”(کشی نوح صفحہ16مندرجہ روحانی خزائین جلد 19صفحہ18)
پھر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…”حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف (ترکھان)کے ساتھ قبل نکاح پھرنااس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے”(ایام صلح صفحہ 66روحانی خزائین جلد 14صفحہ300)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…”جب چھ سات مہینہ کا حمل ظاہر ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نا م کے ایک نجار(ترکھان)سے نکاح کر دیااور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کوبیٹا پیدا ہوا وہی عیسیٰ اور یسوع کے نام سے مشہور ہوا”(نعوذ باللہ من ذالک)
(چشمہ مسیحی صفحہ 26روحانی خزائین جلد 20صفحہ355-356)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…”ایک اور اعتراض ہے جو ہم نے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ یسوع (عیسیٰ علیہ السلام )کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کسبی گناہ سے پاک تھا حالانکہ یہ صریح غلط ہے…یسوع نے اپنا گوشت و پوست تمام تر اپنی والدہ سے پایا تھا اور وہ گناہ سے پاک نہ تھی”(نعوذ باللہ من ذالک)
(کتاب البدیہ 59روحانی خزائین جلد 13صفحہ77)
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے…”آپ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام )کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے، تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا”(نعوذ باللہ من ذالک)(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ7روحانی خزائین جلد 11صفحہ291)
سوال کرنے والے سے میں پوچھتا ہوں کہ مذکورہ بالا عبارتیں بار بار پڑھیں کیا ان سے نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ من ذالک نقل کفرکفرنہ باشدیہ ثابت نہیں ہوتا کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام حلال زادے پیدا نہیں ہوئے تھے اور مریم علیہا السلام اور یوسف نجارنکاح سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زنا کرتے کراتے رہے(نعوذ باللہ من ذالک)
فرمائیے اگر کوئی ہمیں کہے کہ تمھاری تین نانیاں دادیاں زناکار کسبی عورتیں تھیں تمھاری ماں فلاں آدمی کے ساتھ نکاح سے پہلے پھرا کرتی تھی جب چھ سات ماہ کا حمل ظاہر ہو گیا تو اسی کے ساتھ حمل کی حالت میں نکاح کر لیا۔ اسکے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد تم پیدا ہو گئے ۔ کون ایسا بے غیرت ہے جو ایسے شخص کے ساتھ کسی قسم کا تعلق جوڑیگا۔سچ تو یہ ہے کہ بے غیرت انسان سے بھی اتنی بے غیرتی کی امید نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ اللہ کے نبی کی ماں کو جنکی تعریف میں قرآن شریف کے ورقے بھرے پڑے ہیں اور اللہ کے نبی کو ایسے ناپاک کلموں سے یاد کرنے والوں کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ایسوں کے ساتھ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا انکی خوشی غم میں شریک ہونا وغیرہ وغیرہ کسی قسم کا تعلق رکھنا جوڑنا چاہئیے یا نہ۔میری طرف سے ہی نہیں ہر غیرت مند اپنی غیر ت سے یہ سوال کرے تو غیرت یہی کہے گی کہ ایسوں کے منہ پر پیشاب کرنا اپنے پیشاب کی توہین کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کے منہ سے ایسے کلمات اپنے ماں باپ کیلئے تو شاید برداشت کرلے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق برداشت کرے ایں خیا ل است بحال است و جنوں۔