Language:

مجاہد ختم نبوت مظفر علی شمسیؒ

            مجاہد ختم نبوت مظفر علی شمسیؒ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں دیگر رہنمائوں کے ساتھ گرفتار ہو گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ سکھر جیل کی ایک کوٹھڑی میں انھیں بند کر دیا گیا۔ عیدالفطر کا دن تھا، مظفر علی شمسی کی شدید بیمار بہن کا خط بھائی کو جیل میں اسی روز ملتا ہے جسے پڑھ کر آنکھیں پرُنم ہو جاتی ہیں۔

’’میرے بھیا! اس امتحان میں آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتی۔ اب قریب المرگ ہوں۔  بخار دامن نہیں چھوڑتا، 104 درجہ حرارت سے گرتا نہیں، کھانسی زوروں پر ہے۔ محبوب بھائی ڈاکٹر کو لائے تھے۔ ایکسرے میں ٹی بی کی ابتدائی منزل ہے۔ ماں باپ نے مجھے آپ کے سپرد کیا تھا اور اب موت مجھے لیے جا رہی ہے۔ کاش کہ میرے آخری وقت آپ میرے پاس ہوتے۔ آپ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو مصائب برداشت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو استقلال بخشے اور قیامت کے دن آپ کی قربانی ہمیں دربارِ رسالتصلی اللہ علیہ وسلم میں سرخرو کرے، آپ بہادری سے قید کاٹیں۔ اگر زندہ رہی تو مل لوں گی ورنہ میری قبر پر تو آپ ضرور آئیں۔ سب بچے سلام کہتے ہیں، اب ہاتھ میں طاقت نہیں، لہٰذا خط ختم کرتی ہوں۔

بھیا سلام

آپ کی بہن

اس خط سے شاہ صاحب سمیت تمام راہنما آبدیدہ ہو گئے۔ سب نے عزیزہ کی صحت کے لیے دعا کی۔ اس خط کا مطلب وہی سمجھ سکتا ہے جو وطن سے دور ہو اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہو۔

            مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا مظفر علی شمسی فرماتے ہیں:

            ’’تحریک ختم نبوت 1953ء میں ایک عورت اپنے بیٹے کی شادی کی برات لے کر دہلی دروازہ کی جانب آ رہی تھی۔ سامنے سے تڑتڑکی آواز آئی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے لوگ سینہ تانے بٹن کھول کر گولیاں کھا رہے ہیں تو اس عورت نے برات کو معذرت کر کے رخصت کر دیا۔ پھر اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا آج کے دن کے لیے میں نے تمھیں جنا تھا۔ جائو اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان ہو کر دودھ بخشوا جائو، میں تمہاری شادی اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کروں گی اور تمہاری برات میں آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کروں گی۔ جائو پروانہ وار شہید ہو جائو تاکہ میں فخر کر سکوں کہ میں بھی شہید کی ماں ہوں۔ بیٹا ایسا سعادت مند تھا کہ تحریک میں ماں کے حکم پر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے شہید ہو گیا۔ جب لاش لائی گئی تو گولی کا کوئی نشان پشت پر نہ تھا۔ سب گولیاں سینہ پر کھائیں۔‘‘

یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں