Language:

معتصم

عموریہ کے محاصرے کے دوران ایک شخص دیوار پر کھڑا ہو کر… العیاذ باللہ… نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہر مجاہد کی خواہش تھی کہ اس منحوس کے ہلاک کرنے کی سعادت اس کے حصے

  ۱؎      ترجمہ: تیری تلوار کے ذریعہ حق کو بلندی ملتی ہے اور حق ہمیشہ غلبہ پانے والا ہے۔ اور جہاں جہاںتُو شمشِیر کے جوہر دکھاتا ہے، دین کو مدد ملتی ہے۔

 ۲؎       ترجمہ: ’’آغاز اس دین کی ایک شخص سے تھی کہ اس نے کوشش کی اور وہ سردار ہو گیا امتوں کا۔‘‘

میں آئے لیکن وہ تیروں اور حملوں کی زد سے محفوظ ایسی جگہ کھڑا ہوتا جہاں سے اس کی آواز تو سنائی دیتی تھی لیکن اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی۔ یعقوب بن جعفر نامی شخص لشکرِ اسلام میں ایک بہترین تیر انداز تھا۔ گستاخ ملعون نے جب ایک بار دیوار پر چڑھ کر شانِ رسالتصلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کے لیے منہ کھولا تو یعقوب گھات میں تھا۔ فوراً تیر پھینکا جو سیدھا جا کر اس کے گلے سے پار ہوا، وہ گر کر ہلاک ہوا تو فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ یہ مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا واقعہ تھا۔ معتصم نے اس مجاہد تیر انداز کو بلایا اور کہا۔ ’’آپ اپنے اس تیر کا ثواب مجھے فروخت کر دیجئے۔‘‘ مجاہد نے کہا ثواب بیچا نہیں جاتا۔ کہا، میں آپ کو ترغیب دیتا ہوں اور ایک لاکھ درہم اسے دیے۔ مجاہد نے انکار کیا۔ خلیفہ نے پانچ لاکھ درہم اسے دیے، تب وہ جانباز مجاہد کہنے لگا:

’’مجھے ساری دنیا دے دی جائے تو بھی اس کے عوض اس تیر کا ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ اس کا آدھا ثواب بغیر کسی عوض کے میں آپ کو ہبہ کرتا ہوں۔‘‘

معتصم اس قدر خوش ہوا گویا اسے ایک جہاں مل گیا ہو۔ معتصم نے پھر پوچھا، آپ نے تیر اندازی کہاں سے سیکھی ہے؟ فرمایا، بصرہ میں واقع اپنے گھر میں۔ معتصم نے کہا، وہ گھر مجھے فروخت کر دیں۔ کہنے لگا، وہ رمی اور تیر اندازی سیکھنے والے مجاہدین کے لیے وقف ہے (اس لیے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا) بعدازاں معتصم نے بڑی منت سماجت کے بعد ہدیہ کے طور پر اس جانباز مجاہد کو ایک لاکھ درہم انعام میں دیے۔

عمرو بن اللیثؒ امام ابو القاسم قشیریؒ کی روایت ہے:

’’خراسان کا ایک بادشاہ جس کا نام عمرو بن اللیث تھا (جو صفار کے لقب سے مشہور تھا) اس کی وفات کے بعد اسے کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا، قبر میں تیرے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تو اس نے جواب میں کہا: ’’میں نے اپنی زندگی میں ایک دن پہاڑ کی چوٹی سے اپنی ساری فوج کو دیکھا تو مجھے اس قدر فوج دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، تو میں نے دل میں کہا، کاش! میں، حضور انورصلی اللہ علیہ وسلمکے مبارک زمانہ میں ہوتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے خلاف آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتا اور یہ فوج وہاں کام آتی۔‘‘ میری اس دلی تمنا کو دربار خداوندی میں مقبولیت حاصل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے محض اس خواہش کے نتیجہ میں میری بخشش فرما دی۔‘‘                

  (کتاب الشفاء ج 2 ص 27)

بو علی سینا

آج کائنات میں روئے زمین پرکوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس پر ہر وقت’’اشھدان محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی صدانہ گونج رہی ہو۔ پوری دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ صدا سنائی نہ دیتی ہو۔ مشہور فلسفی اور حکیم بو علی سینا جو اپنے زمانے میں حکمت اورعلم کے شناور سمجھے جاتے تھے، ان کی فراست و ذہانت کا ڈنکا بجا ہوا تھا، ان کے ایک شاگرد نے ایک مرتبہ استاد سے کہا:’’اللہ نے آپ کو اتنی فہم و فراست اورعلم دیا ہے تو اگر آپ نبوت کا دعویٰ کردیں تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی خلقت آپ کے ساتھ ہو جائے گی، آپ کو لوگ نبی مان لیں گے۔‘‘ بوعلی سینا نے اپنے شاگرد کی بات سنی اَن سنی کردی۔ کوئی جواب نہ دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک عرصے بعد بوعلی سینا کو شام کا سفر پیش آیا اوردمشق گئے۔ جامع مسجد دمشق کے قریب ایک مکان کے اندر قیام کیا، شاگرد بھی ساتھ تھا، سخت سردی کا زمانہ تھا، برفانی و طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں۔ رات کو شیخ تہجد کے لیے بیدار ہوئے۔ شاگرد ساتھ سویا ہوا تھا۔ اس سے کہا:’’بیٹا نماز پڑھنی ہے، وضو کرنا ہے، پانی گرم کر دو تاکہ میںوضو کر کے نماز ادا کرلوں۔‘‘ شاگرد نیند کے مزے لے رہے تھے۔ لحاف میں گھسے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا:’’جناب شیخ! تہجد کی نماز کوئی فرض و واجب تو ہے نہیں، یہ تو ایک نفلی عبادت ہے اورسردی بہت سخت ہے۔ اگر آپ تہجد نہ پڑھیں تو کیا حرج ہے؟ ‘‘ شیخ خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر گزری تھی کہ دمشق کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ مؤذن مسجد کے کے مینار پر چڑھ کر کہہ رہا تھا: ’’اشھدان لا الہ الا اللّٰہ اشھدان محمد رسول اللّٰہ‘‘ اذان ختم ہوئی تو شاگرد کو استاد نے بلایا اور کہا:’’آج سے کچھ عرصہ پہلے تم نے ایک تجویز پیش کی تھی۔ اس وقت تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا، آج میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ تم نے مجھ سے کہا تھا، نبوت کا دعویٰ کرو توخلقت میرے ساتھ ہو جائے گی۔ یہ بتائو! اگر میں نبوت کا دعویٰ کرتا تو سب سے پہلے میرے جو میری تصدیق کرنے والے ہوتے، وہ تم ہی ہوتے۔ تمہارا حال یہ ہے کہ میں نے تمہیں پانی گرم کرنے کا کہا تو تمہیں سردی یاد آگئی اور مجھے یہ بتلانے لگے کہ یہ فرض نہیں، واجب نہیں، نفل ہے۔ جبکہ دوسری طرف دیکھو جامع دمشق کے مینار پر ان طوفانی و برفانی ہوائوں کے باوجود مؤذن یہ نعرہ لگا رہا ہے:’’اشھدان لا الہ الا اللّٰہ اشھدان محمد رسول اللّٰہ‘‘ اس کو آج حضورصلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمایا کہ تم مینار پر جا کر اذان دو، ان کو تو دنیا سے گئے صدیاں گزر چکی ہیں لیکن آپ کے حکم کی خاطر سردی کو خاطر میں لاتا ہے اورنہ ہی طوفانی ہوائوں کا خیال کرتا ہے ۔ کھڑے ہو کر’’اشھدان محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی صدا بلند کرتا ہے۔ نبی وہ ہوتے ہیں، پیغمبر وہ ہوتے ہیں جن کے ماننے والے اپنی جان کی پروا نہیں کرتے، اپنی صحت کی پروا نہیں کرتے اوران کے حکم پر اپنی جان قربان کردیا کرتے ہیں۔