Language:

نوبل انعام کیا چیز ہے؟

15 اکتوبر 1979ء کو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے لئے نوبل تجویز ہوا۔ اور 10دسمبر 1979ء کو یہ انعام دے دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ انعام کیا ہے؟ اور قادیانی اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ان امور پر غورو فکر کی ضرورت تھی مگر ان امور پر پردہ ڈالنے کے لئے قادیانی یہودی لابی نے اس کا بے پناہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ کسی کو اس پر غورو فکر کا موقع ہی نہ ملایہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ نوبل کا حصول گویا ایک مافوق الفطرت معجزہ ہے، جو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے ذریعہ ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس کو مرزا غلام احمد قادیانی کی صداقت کی دلیل بنانے کی بھی کوشش کی گئی، بہت سے مسلمان جن کو نہیںمعلوم کہ نوبل انعام کیا چیزہے اور جو نہیں جانتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کون ہے؟ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ نوبل انعام کی حقیقت واضح کی جائے اور یہ دیکھا جائے۔

نوبل انعام کیا چیز ہے :محمد مجیب اصغر قادیانی نے ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی پر ایک کتا بچہ ’’ پہلا احمدی مسلمان سائنس دان عبدالسلام‘‘ کے نام سے بچوں کے لئے لکھا ہے، جس میں وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے لکھتا ہے:’’ بچو ! نوبل انعام ایک سوئیڈش سائنس دان مسٹر الفرڈبن ہارڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے۔ نوبیل 21 اکتوبر 1833ء میں سٹاک ہوم کے مقام پر جو کہ سوئیڈن کا دارالحکومت ہے پیدا ہوا اور 10دسمبر 1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا نوبیل ایک بہت بڑا کیمیا دان اور انجینئر تھا۔ اس کی وصیت کے مطابق ایک فاؤنڈیشن بنائی گئی جس کا نام نوبیل فاؤنڈیشن رکھا گیا۔ یہ فاؤنڈیشن ہر سال 15 انعامات دیتی ہے۔ ان انعامات کی تقسیم کا آغاز دسمبر 1901ء میں ہو اجو کہ الفرڈ نوبیل کی پانچویں برسی تھی۔

نوبل انعام فزکس، فزیالوجی، کیمسٹری یا میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں اور میدانوں میں نمایاں اور امتیازی کارنامہ سرانجام دینے والے کو دیا جاتا ہے۔ ہر انعام ایک طلائی تمغہ اور سرٹیفکیٹ اور رقم بطور انعام جو کہ تقریباً 80ہزار پونڈ پر مشتمل ہوتی ہے دی جاتی ہے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے امیدواروں کے نام مختلف ایجنسیوں کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں اور وہ انعام کے صحیح حقدار کا فیصلہ کرتی ہے، مثلاً فزکس اور کیمسٹری رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے۔ فزیالوجی رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے۔ اب کا مضمون سویڈش اکیڈمی آف فرانس اور اسپین کے سپرد اور امن کا انعام ایک کمیٹی کے سپرد ہوتا ہے جس کے پانچ ممبر ہوتے ہیں جو کہ ناروجین پارلیمینٹ چنتی ہے۔ ‘‘                                                                                                                            (بحوالہ کتاب مذکورہ)

نوبل انعام کے بارے میں مزید معلومات یہ ذہن میں رکھنی چاہیں۔

(1) الفریڈ برنارڈ نوبل ڈائنامائٹ کا موجد اور سائنٹسٹ تھا جنگی آلات ، بارود اور تارپیڈو وغیرہ پر تحقیقات کرتا رہا، بالا خر اس نے جنگی آلات تیار کرنے والی دنیا کی سب سے نامور کمپنی ’’ بوفورز کمپنی ‘‘ خریدلی۔ (2)ڈائنامائٹ کے تجربات کرتے اس کے بھائی کی اور تین اور اشخاص کی موت واقع ہوئی، جو اس کے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سے اس شخص پر قنوطیت کی کیفیت طاری ہوئی۔ اور گویا اس کے کفارہ میں اس نے اپنی جائیدار کا بڑا حصہ ’’نوبل انعام‘‘ کے لئے وقف کردیا۔ (3)اوقف کی اصل رقم (اس زمانہ کے ایکسچینج کے مطابق) تراسی لاکھ گیارہ ہزار ڈالر تھی۔ وصیت یہ کی گئی کہ اصل رقم بینک میں محفوظ رہے، اور اس کے سود سے انعامات کی رقم پانچ شعبوں میں (جن کا تذکرہ مذکورہ بالا اقتباس میں آچکا ہے۔ ) مساوی تقسیم کی جائے۔ ہر شعبہ میں اگر ایک ہی آدمی انعام کا مستحق قرار دیا جائے تو اس شعبہ کے حصہ کی پوری انعامی رقم اس کو دی جائے اور اگر کسی شعبے میں ایک سے زائد افرادکے نام (جن کی تعداد تین سے زیادہ کسی صورت نہیں ہونی چاہئے) انعام کے لئے تجویز کئے جائیں تو اس شعبہ کے حصہ کی سودی رقم ان افراد میں برابر تقسیم کردی جائے ۔ ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ اگر مجوزہ شخص انعام وصول کرنے سے انکار کردے تو اس کا حصہ اصل زر میں شامل کردیا جائے۔ چنانچہ 1948ء میں ہر شعبہ کے حصہ میں سود کی یہ سالانہ رقم بتیس ہزار ڈالر آئی اور 1980ء میں یہ سودی رقم بڑھ کر دو لاکھ دس ہزار ڈالر ہوگئی۔ فزکس کے شعبہ میں تقریباً سو افراد کو یہ سودی انعام مل چکا ہے 1930ء  میں سرسی وی رمن (ہندوستانی ہندو) واحد شخص تھا جس کو فزکس میں نوبل انعام ملا اور 1983ء میں ایک اور ہندوستانی امریکن کو یہ انعام ملا۔ادب کے شعبہ میں رابند ناتھ ٹیگور بنگالی ہندو کو1913ء میں یہ نوبل انعام ملائ۔ گزشتہ چند سالو ں میں جنوبی امریکہ کے چند باشندوں اور جاپان کے ادیب کو نوبل انعام ملا۔ امن کے شعبہ میں 1973ء میں امریکہ کے ہنری کیسنجر اور شمالی ویت نام کے مسٹر تھو کو نوبل انعام ملا۔ لیکن مسٹر تھو کی غیرت نے اس انعام کے وصول کرنے سے انکار کردیا ان دونوں کے لئے یہ انعام ویت نام میں جنگ بندی کی بات چیت کی بنا پر تجویز کیا گیا تھا۔ 1979ء میں ہندی قومیت کی حامل ایک متجردہ خاتون ’’ٹریسا‘‘ کو امن کے ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا اور 1978ء میں مصر کے سابق صدر انور سادات اور اور اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم مسٹر بیگن کو ’’امن کا نوبل انعام ‘‘ عطا کیا گیا ۔ محض اس خوشی میں کہ موخزالذکر ( مسٹر بیگن)نے اول الذکر( انور سادات) سے ’’ اسرائیل ‘‘ کو باقاعدہ تسلیم کرالیا تھا۔

مندرجہ بالا اشارات سے درج ذیل امور معلوم ہوئے۔

اول( یہ کہ انعامات اس شخص (مسٹر نوبل) کی یاد میں دئیے جاتے ہیں جس نے دنیا کو مہلک ہتھیاروں کا سبق پڑھایا اور جو امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریو ںکا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔

دوم( یہ انعام جس رقم سے دئیے جاتے ہیں وہ خالص سود کی رقم ہے، جس کے لینے دینے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے:’’ عن جابر رضی اللہ عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربامو کلہ کاتبہ و شاہد یہ وقال ھم سواء ‘‘  (صحیح مسلم جلد2 ص27)(ترجمہ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے والے پر، اس کے دینے والے پر، اس کے لکھنے والے پر، اس کے گواہوں پر اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں۔اور جس کو قرآن کریم نے خدا اور رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے:فان لم تفعلو افاذ نوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ (البقرہ آیت نمبر279)

سوم (یہ انعام نہ کوئی خرق عادت معجزہ ہے اور نہ انسانی تاریخ کا کوئی غیر معمولی واقعہ ہے۔ مختلف ممالک میں سرکاری اور نجی طور پر مختلف قسم کے انعامات جو ہر سال تقسیم کئے جاتے ہیں، اسی قسم کا ایک انعام یہ ’’ نوبل انعام‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ یہ ’’نوبل انعام ‘‘ ہر سال کچھ لوگوں کو ملتا ہے۔ ہندوستان اور بنگال کے ہندوؤں کو بھی مل چکا ہے۔ اسرائیل کے یہودی کو بھی دیا جاچکا ہے اور نصرانی مبلغہ ’’ٹریسا‘‘ بھی اس شرف سے (اگر اس کو شرف کہنا صحیح ہے) مشرف ہوچکی ہے۔

الغرض یہ نوبل انعام جو قریباً ایک صدی سے مروج ہے، سینکڑوں اشخاص کو مل چکا ہے۔ کیا یہ کہیں سننے میں آیا ہے کہ سینکڑوں یہودی، نصرانی اور دہرئیے یہ کہہ کر دنیا پر پل پڑے ہوں کہ ہمیں نوبل انعام کا ملنا ہمارے مذہب کی حقانیت کی دلیل ہے۔ یہ میرے مذہب کے برحق ہونے کا معجزہ ہے لہٰذا میرا دین اور میرا نظریہ حیات سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اور ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو جو انعام دیا گیا تھا وہ ایک مشترکہ انعام تھا جو طبیعات کے شعبہ میں 1979ء میں تین اشخاص کو دیا گیا جن میں ایک ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی بھی تھا۔ اس سے بڑا کارنامہ تو اس ہندو کا تھا۔ جس نے 1930ء میں طبیعات کا انعام تن تنہا حاصل کیا۔ اب اگر ایک قادیانی کو طبیعات کا مشترکہ انعام ملنا اس کے مذہب کے حقانیت کی دلیل ہے تو اس سے نصف صدی قبل ایک ہندو کو تن تنہا یہی انعام ملنا بدرجہ اولیٰ ہندو مذہب کی حقانیت کی دلیل ہونی چاہئے۔ اس لئے اس کو ایک غیر معمولی اور خرق عادت واقعہ کی حیثیت سے پیش کرنا قادیانی مراق کی شعبدہ کاری ہے (یاد رہے کہ قادیانیوں کے گرو مرزا قادیانی کو مراق اور ہسٹیریا کی بیماری تھی ان بیماریوں میں ) ۔

چہارم ( ان انعامات کی تقسیم میں تقسیم کنند گان کی کچھ سیاسی و مذہبی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں اور جن افراد کو ان انعامات کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ان کے انتخاب میں بھی یہی مصلحتیں جھلکتی ہیں۔چنانچہ ان سینکڑوں افراد کے ناموں کی فہرست پر سرسری نظر ڈالئے، جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا ان میںا ٓپ کو الاماشاء اللہ سب کے سب یہودی ، عیسائی اور دہرئیے نظر آئیں گے۔ سویڈن کے منصفوں کی نگاہ میں پوری صدی میں ایک مسلمان بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو طب، ادب، طبیعات وغیرہ کے کسی شعبہ میں کوئی اہم کارنامہ انجام دے سکا ہو، ہر شخص منصفان سویڈن کی نگاہ انتخاب کی داد دے گا۔ جب وہ یہ دیکھے گا کہ رابندرنا تھ ٹیگورہندو کو بنگالی زبان کی شاعری پر، جاپانی ادیب کو اپنی زبان میں ادبی کارنامے پراور جنوبی امریکہ کی ریاستوں کے باشندوں کے اپنی زبانوں میں ادبی کارناموں کو مستند سمجھتے ہوئے لائق انعام سمجھا گیا۔ لیکن بر کو چک پاک وہند کے کسی ادیب ، کسی شاعر اور کسی صاحب فن کی طرف منصفان سویڈن کی نظریں نہیں اٹھ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔ مثال کے طور پر ہمارے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال  ؒ کو لیجئے، پوری دنیا میں ان کے ادب وزبان کا غلغلہ بلند ہے۔ انگلستان کے نامور پروفیسروں نے ان کے ادبی شہ پاروں کو انگریزی میں منتقل کیا ہے لیکن وہ نوبل انعام کے مستحق نہیں گردانے گئے ہیںان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ حکیم اجمل خان مرحوم نے شعبہ طب ،ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی وغیرہ نے سائنسی ریسرچ میں کیا کیا کارنامے انجام دئیے۔ لیکن نوبل انعام کے مستحق نہ ٹھہرے۔ یہ تو چند مثالیں محض برائے تذکرہ زبان قلم پر آگئیں۔ ورنہ ایک صدی کے پوری دنیائے اسلام کے نابغہ افراد کی فہرست کون مرتب کرسکتا ہے۔ لیکن کسی کو نوبل انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا اور ڈاکٹر عبدالسلام میں کوئی خوبی تھی یا نہیں تھی مگر اس کی یہی ایک خوبی تھی کہ وہ قادیانی تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کا یہودیوں سے بھی بڑھ کر دشمن تھا۔ بس اس کی یہی خوبی منصفان سویڈن کو پسند آگئی اور نوبل انعام اس کے قدموں میں نچھاور کردیا گیا۔

پنجم۔ بعض غیور اور باحمیت افراد اس سودی انعام کے وصول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک خاص قسم کی ’’رشوت‘‘ ہے۔