Language:

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو

سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کا شمار دنیا کے عظیم راہنمائوں میں ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی ذات سے کسی کو ہزار اختلاف ہوں، تو ہوں پر یہ سچائی اپنی جگہ ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں۔ وہ انتہائی مدبر سیاستدان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بے حد وسیع المطالعہ، وقت کے نبض شناس اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام خامیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 29 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانی قیادت کے ایما پر بے پناہ تشدد کیا گیا جب وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے بعد واپس ملتان جا رہے تھے۔ ان طلبہ کا قصور یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 22 مئی کو پشاور جاتے ہوئے ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ اس کی پاداش میں، واپسی پر ان کی گاڑی بلا ضابطہ روک کر طلبہ پر ظلم و تشدد کا ہر نیا طریقہ آزمایا گیا جس سے 30 طلبہ شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردعمل ہوا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور پرُجوش مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ چنانچہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک قرارداد پیش کی۔ اس سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 13 جون 1974ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’جو شخص ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ ربوہ کے واقعہ سے تعلق رکھنے والے سارے مسئلے کو جولائی کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ حکمران جماعت کے ارکان پر پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا جائے گا اور انھیں آزادی ہوگی کہ وہ کم و بیش 90 سال پرانے اس اہم اور نازک مسئلے کو عوام کی اکثریت کی خواہشات، ایمان اور عقیدے کی رُو سے مستقل طور پر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے مسئلے پر، میں آمرانہ طور پر خود کوئی فیصلہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ جمہوری طریق کار یہی ہے کہ اس اہم مسئلے پر عوام کے منتخب نمائندے خود سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں۔ میں قادیانیوں کے مسئلہ کا جمہوری، منصفانہ اور صحیح فیصلہ کروں گا اور مجھے اپنے فیصلے پر فخر ہوگا۔ یہ فیصلہ کرانے کے لیے وقت کی قید نہیں لگائی جا سکتی۔ ختم نبوت کا مسئلہ ہرگز متنازعہ نہیں۔ فیصلہ تو ہو چکا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جو شخص ختم نبوت کا قائل نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اب اسے ایک ضابطہ کے تحت لانا باقی ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے تھے لیکن انھوں نے ہمیں خرید تو نہیں لیا۔ ووٹ تو ہمیں دوسرے فرقوں نے بھی دیے۔ مگر ہم ان کے محتاج تو نہیں۔ میں صرف اللہ کا محتاج ہوں اور پاکستان اور اس کے عوام سے وفاداری میرا ایمان ہے۔ میں وہی کروں گا جو میرا ضمیر کہے گا۔

میں مسلمان ہوں۔ مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ کلمہ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا۔ ختم نبوت پر میرا ایمان کامل ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں نے ملک کو جو دستور دیا ہے، اس میں ختم نبوت کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی۔ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں ایسی کوئی ضمانت کیوں نہیں دی گئی۔ حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے۔ یہ شرف مجھ گناہگار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے لیے ختم نبوت پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ ہم نے یہ ضمانت اس لیے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے آخری رسول ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ملک کو نیا عوامی دستور دیا اور انشاء اللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دوں گا۔ یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہوگا اور یومِ حساب، خدا کے سامنے اس کام کے باعث سرخرو ہوں گا۔‘‘

انہی دنوں مجاہد ختم نبوت جناب آغا شورش کاشمیری نے بھٹو سے طویل ملاقات کی جس میں انھوں نے اثر انگیز انداز میں ختم نبوت کی وکالت کی۔ اس پر جناب بھٹو کو کہنا پڑا ’’شورش کاشمیری نے میرا دو ٹوک جواب سننے کے باوجود قادیانیوں کے مذہبی معتقدات میرے سامنے اس طرح رکھے جن کے مطابق امت کا ہر فرد حتیٰ کہ خود میں اور میرے ماں باپ بھی کافر تھے۔ مجھے قادیانیوں کی کتابیں دیکھ کر بڑا غصہ آیا… کم از کم میں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قادیانی حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت علیؓ اور میرے ماں باپ تک کو کافر سمجھتے ہیں… (نعوذ باللہ)

’’لیکن میں نے اپنے غصے پر قابو پا کر شورش کاشمیری سے کہا۔ یہ تو درست ہے کہ قادیانی، امت مسلمہ کے ہر چھوٹے بڑے رکن کو کافر سمجھتے ہیں لیکن ان کے عقائد کے بارے میں مَیں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کام تو علما کا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی تبلیغ کے ذریعے ان عقائد سے تائب کریں اور جو وقت وہ تحریکیں چلانے میں صرف کرتے ہیں، وہ قادیانیوں کے خلاف تبلیغ میں صرف کریں، حکومت ان کی ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔‘‘

شورش نے جو کچھ کہا اس پر باحوالہ دلائل دیے اور سب سے آخر میں، اس نے بھی مفتی محمود کی طرح ایک جذباتی مطالبہ کیا۔ اس کے مطالبے کو قبول کرنے کے لیے میرے سامنے اس کے دلائل کا انبار تھا اور میں نے دل ہی دل میں یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا…

لیکن اس موقع پر شورش نے ایک ایسی حرکت کی جس سے میں لرز گیا۔ ان کے ساتھی مولوی تاج دین جو ان کے ہمراہ تھے، وہ بھی بڑے حیران ہوئے۔ شورش نے گفتگو کرتے ہوئے یکایک اٹھ کر بڑے جذباتی انداز میں میرے پائوں پکڑ لیے۔ میں نے شورش کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے اٹھا کر گلے سے لگا لیا مگر شورش ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا!

’’بھٹو صاحب! ہمارے پاس کون سی عظمت ہے۔ ہم ایک سو سال سے اپنے آقا و مولاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت بحال نہیں کر سکے۔ ہم سے زیادہ ذلیل قوم کسی ملک نے آج تک پیدا نہیں کی ہوگی۔ ہم اس وقت عزت و عظمت کا تاج سر پر رکھ سکتے ہیں جب قادیانیوں سے محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا تاج چھین کر آقائے کونینؐ کو راضی کر لیں۔

پھر شورش نے روتے ہوئے میرے سامنے اپنی جھولی پھیلا کر کہا۔ ’’بھٹو صاحب! میں آپ سے اپنے اور آپ کے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم المرسلینی کے تحفظ کی بھیک مانگتا ہوں۔ آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں۔ میں خدا کے حضور خالی ہاتھ چلا جائوں گا مگر خدا کے لیے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلمکی نبوت کی حفاظت کر دیجیے۔ یہ میری جھولی نہیں۔ فاطمہ بنت محمد (رضی اللہ عنہا) کی جھولی ہے۔ جس کی ناموس پر قادیانی حملہ آور ہیں۔‘‘

اب اس سے زیادہ مجھ میں کچھ سننے کی تاب نہ تھی۔ میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آ گئی۔ میں بھی آخر مسلمان تھا اور اسی نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا تھا… میں مسلمان کی حیثیت کے سوا اپنی ہر حیثیت بھول گیا تھا۔ میں نے شورش سے وعدہ کر لیا کہ میں قادیانی مسئلہ ضرور حل کر دوں گا۔

(ہفت روزہ چٹان لاہور 29 اکتوبر 1979ء ص 12-11)

ذوالفقار علی بھٹو جانتے تھے کہ قادیانیوں کو اگر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو انہیں امریکہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ جب بھٹو مرحوم سربراہ مملکت کی حیثیت سے پہلی مرتبہ امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی صدر نے انہیں ہدایت کی کہ پاکستان میں قادیانی جماعت ہمارا سیکٹ (Sect)ہے۔ ان کا آپ نے ہر لحاظ سے خیال رکھنا ہے۔ دوسری مرتبہ بھی جب امریکہ کے دورے پر گئے تو بھی یہی بات دہرائی گئی، اس بات کا انکشاف انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں یہ کہتے ہوئے کہا: ’’یہ بات میرے پاس امانت تھی۔ فقط ریکارڈ پر لانے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ بھٹو کے دور اقتدار میں کئی کلیدی افسران کو اس لیے جبری ریٹائرڈ کرنا پڑا کہ انہوں نے ائیر فورس پر مرزائیوں کو قابض کرانے کے لیے بڑی ناکام تدابیر کیں۔ ایک دفعہ ایئر مارشل ظفر احمد چودھری کے ہاتھوں کورٹ مارشل کی بھینٹ چڑھنے والے فضائیہ کے ایک مسلمان افسر نے مسٹر بھٹو تک رسائی حاصل کی اور انہیں ظفر چودھری کی گھٹیا ذہنیت سے آ گاہ کیا۔ ان کی یہ لرزہ خیز داستان سن کر مسٹر بھٹو بہت حیران ہوئے۔اس روز بھٹو بے حد پریشان ہوئے اور ان کے ماتھے پر معنی خیز شکن اُبھر آئی اور کہا: ’’اچھا یہ ہے کہ ان کا اصل روپ!‘‘ اس کے علاوہ بھی بھٹو کو بہت سی ایسی باتیں ظفر چودھری کے حوالے سے معلوم ہوئیں جن سے انھیں یقین کامل ہو گیا کہ قادیانی نہ صرف غیر مسلم بلکہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی آگ ہیں۔

چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر 13 دن کی طویل جرح کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ آئین کی دفعہ 106 کی شق (2) اور 260 کی شق (3) کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے پہلے لکھی جانے والی اپنی آخری کتاب “If I am Assassinated?” ’’اگر مجھے پھانسی دی گئی‘‘ میں لکھا:

’’میں ایک اور خاص بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری مسٹر زیڈ اے فاروقی کے بیانات وائٹ پیپر میں جگہ جگہ شامل کیے گئے ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ مسٹر زیڈ اے فاروقی، مسٹر این اے فاروقی کے بھتیجے بھی ہیں جن کی بیوی میرے مقدمہ میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی بیوی کی بہن ہے۔ جہاں تک میری اطلاعات کا تعلق ہے، این اے فاروقی نے مسعود محمود کے وعدہ معاف گواہ بننے سے قبل مسعود محمود اور مارشل لاء حکام کے درمیان رابطے کا کام کیا تھا۔ یہاں میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری مسٹر این اے فاروقی جن کے بیانات کو وائٹ پیپر میں بنیاد بنایا گیا ہے، وہ قادیانی ہیں اور انھوں نے مجھ سے اس بات کا بدلہ لیا ہے کہ میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار کیوں دیا تھا۔‘‘

مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمودؒ بیان کرتے ہیں:

’’تحریک ختم نبوت 1974ء کے دوران میں حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے جید علمائے کرام پر مشتمل ایک وفد نے جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور انھیں قادیانی عقائد و عزائم سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر علمائے کرام نے بھٹو صاحب سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کی پرُزور درخواست کی۔ اس پر جناب بھٹو نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ اپنے ایمان اور عقیدے کی رُو سے قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اور قادیانیوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے فیصلہ پر ہر مسلمان فخر کرے گا۔ مزید برآں انھوں نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے وفد سے کہا کہ آپ لوگ مجھ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا رہے ہیں لیکن میں اس کے بدلہ میں اپنی گردن میں پھانسی کا پھندہ دیکھ رہا ہوں، کیونکہ امریکہ سمیت مجھے کئی عالمی طاقتوں نے خصوصی طور پر کہا ہے کہ ’’آپ پاکستان میں احمدیوں کا خاص خیال رکھیں!‘‘

قادیانیوں کو آئین میں غیر مسلم اقلیت قرار دلانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر قادیانیوں نے جشن منایا، مٹھائیاں تقسیم کیں اور جھوٹے مدعی نبوت اور انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا قادیانی علیہ ماعلیہ کی کتابوں کو کھنگالنا شروع کر دیا کہ شاید کوئی ایسا لفظ مل جائے جسے وہ الہام بنا کر جناب بھٹو پر چسپاں کر سکیں، طویل تلاش و بسیار کے بعد مرزا قادیانی کی ایک نام نہاد وحی ملی کہ

’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ (کلب یموت علٰی کلب) یعنی وہ کتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا۔ جو باون سال پر دلالت کر رہے ہیں یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہوگا۔‘‘

                                                                                (ازالہ اوہام ص 187، مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 190 از مرزا قادیانی)

اس خود ساختہ اور من گھڑت الہام کو سچا ثابت کرنے کے لیے کتے کے اعداد نکالے جو 52 بنتے ہیں اور پھر اسے جناب بھٹو مرحوم پر چسپاں کر دیا کہ چونکہ بھٹو صاحب کو 52 ویں سال میں پھانسی ہوئی اور مرزا قادیانی کا یہ الہام بھٹو صاحب کے بارے میں ہے، لہٰذا کتا (بھٹو) کتے کی موت مر گیا (استغفر اللہ!) اس موقع پر مولانا تاج محمودؒ نے اپنے پرچہ ہفت روزہ ’’لولاک‘‘ میں لکھا تھا:

’’یہ الہام نہیں بلکہ مرزا قادیانی نے اپنے بیٹے مرزا محمود کو کسی شرارت پر جھڑکا ہوگا اور کہہ دیا ہوگا کہ ’’یہ کتا ہے، کتے کی موت مرے گا!‘‘ ماں باپ خواہ مسلمان ہوں یا مرزا قادیانی کی طرح کافر و مرتد اور زندیق ہوں، ان کی بددعا اکثر و بیشتر اولاد کے بارے میں اپنا اثر دکھاتی ہے، چنانچہ مرزا قادیانی کی اس بددعا نے (جسے الہام بنا دیا گیا) اپنا اثر دکھایا اور مرزا محمود گیارہ سال تک خارش زدہ بائولے کتے کی طرح ایک علیحدہ کمرے میں قید رہا، جس کے ساتھ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ آخری دنوں میں تو اس کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ کتے کی طرح بھونکتا تھا۔ چونکہ مرزا محمود کی مدت خلافت باون سال تھی اور ’’کلب‘‘ کے عدد بھی 52ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بددعا مرزا محمود کو لگی اور وہ کتے کے عدد پر مر گیا۔‘‘

قادیانیوں کا بھٹو کے خلاف فیصلہ کے بارے میں جو نقطہ نظر تھا، وہ سابق وزیر خارجہ اور مشہور قادیانی چوہدری ظفر اللہ خاں کے ایک انٹرویو کی صورت میں ’’سیاسی اتار چڑھائو از منیر احمد خان‘‘ میں شائع ہو چکا ہے جس میں اس نے بھٹو صاحب کے بارے میں اسی قسم کی بکواس کی ہے۔ حالانکہ بھٹو مرحوم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ تاریخی کارنامہ سرانجام دیا کہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ ان کی یہ شاندار خدمت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور اس معاملے میں ہم انھیں ملک و ملت کا محسن گردانتے ہیں۔

17 مئی 1978ء سے 4 اپریل 1979ء تک کرنل رفیع الدین نے سنٹرل جیل راولپنڈی میں مارشل لاء انتظامیہ کی جانب سے سپیشل سیکورٹی سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سرانجام دیے جہاں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے اسی عرصہ ملازمت کے مشاہدات، تجربات اور محسوسات پر مبنی ایک کتاب ’’بھٹو کے آخری 323 دن‘‘ تحریر کی جس میں وہ لکھتے ہیں:

’’قادیانی مسئلہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک دفعہ کہنے لگے، رفیع! یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایک بار بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع! کیا قادیانی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوا ہوں۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ’’بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کر دے!‘‘ بھٹو صاحب کی باتوں سے میں یہ اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید ان کو گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘           (ص:67)

جناب کرنل رفیع الدین اپنی مذکورہ کتاب میں بھٹو صاحب کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں زیر تربیت تھا جب مجھے ایک ساتھی کیڈٹ کے ذریعے دست شناسی کا شوق پیدا ہوا۔ کمیشن حاصل کرنے کے بعد میں نے اس مشغلے کو کافی سنجیدگی سے لیا۔ بہت سی کتابیں پڑھیں، بے شمار ہاتھ بھی دیکھے۔ اب بھی جب کبھی گائوں جاتا ہوں تو بزرگ خواتین اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھیر لیتی ہیں۔ لیکن جب انھیں بتاتا ہوں کہ مجھ سے یہ علم لے لیا گیا ہے تو وہ بہت رنجیدہ ہو جاتی ہیں۔ مگر پھر بھی اصرار کرتی ہیں کہ میرے اس بچے کی قسمت کے متعلق کچھ تو بتائو۔

کافی عرصہ ہوا میں نے پامسٹری کو پڑھنا اور پریکٹس کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن اس کے باوجود میں کسی بھی ہاتھ کو دیکھتے ہی چند بڑی لکیروں پر نظر دوڑا لیتا ہوں۔ جس دن سے بھٹو صاحب کے ساتھ جیل میں ملنا ملانا شروع ہوا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کا سلسلہ چل نکلا تو میرا دست شناسی کا پرانا اشتیاق جاگ اٹھا۔ دراصل بھٹو صاحب خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ اس دوران ان کی زبان کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ بھی ہوا میں لہراتے رہتے تھے۔ میری آنکھیں ان کے ہاتھ پر جمی رہتی تھیں۔ ان کے ہاتھ کی لکیروں کو بار بار دیکھتا رہتا تھا۔ ان کی شمسی اور قسمت کی لکیریں بے حد نمایاں تھیں۔ دل، دماغ اور زندگی کی لکیریں بھی کافی غور سے دیکھیں۔ اس کیس کی وجہ سے میں ان کی زندگی کی لکیر کو بار بار دیکھتا۔ ان کی یہ لکیر سوائے پہلے چند سالوں کے جو عموماً ہر ہاتھ پر ایسی ہی ہوتی ہے، باقی گہری، صاف، بغیر کسی خلل اندازی یا کٹ کے شروع سے کلائی تک بالکل نمایاں تھی، یعنی زندگی کی لائن، ٹوٹ پھوٹ، جزیرے یا کٹ وغیرہ سے مبرا تھی۔ یہی نہیں بلکہ مددگار لکیر بھی موجود تھی۔ مجھے ان کے ہاتھ پر کسی حادثے یا اچانک موت کی کوئی نشانی نہیں ملی۔ اس لیے مجھے یقین ہو رہا تھا کہ ان کو سزا تو ہو سکتی ہے لیکن پھانسی سے ان کی زندگی ختم نہیں ہوگی۔

ان کی اپیل خارج ہونے کے بعد جب ایک روز وہ باتیں کر رہے تھے اور ہاتھ کو میرے سامنے خوب ہلا رہے تھے، میں ان کی زندگی کی لکیر کو خوب غور سے دیکھ رہا تھا تو کہنے لگے، رفیع! میرے ہاتھ پر کیا ہے جسے آپ اتنے غور سے دیکھ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا جناب آپ کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی کافی دراز ہے۔ جواب میں انھوں نے کہا کرنل! بھٹوز ہمیشہ جوانی میں ہی مرتے رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا لیکن آپ کا ہاتھ تو اس کے خلاف کہہ رہا ہے۔ وہ مسکرائے، اپنے ہاتھ کو دیکھا اور مجھ سے کہا، کیا آپ پامسٹری جانتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ گذشتہ سالوں میں یہ میرا مشغلہ رہا تھا لیکن آج کل اسے چھوڑا ہوا ہے۔ انھوں نے پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنا ہاتھ مجھے تھما دیں گے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر کہنے لگے کرنل رفیع! آپ نے چودھری یار محمد سے ایک دفعہ کہا تھا کہ دو گردنوں میں سے ایک کو جانا ہے، بھٹو کی گردن یا جنرل ضیا کی گردن، چونکہ بھٹو کی گردن اندر ہے اس لیے شاید اسے ہی جانا ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن وہ ایک عام سی خیال آرائی تھی مگر آپ کے ہاتھ کی لکیر تو ایسا نہیں کہتی۔ بھٹو صاحب نے اس موضوع پر اور کچھ نہ کہا بلکہ خود بخود ہی کچھ دیر میں کوئی اور بات چھیڑ دی۔

پامسٹری کی پریکٹس یعنی ہاتھ دیکھنے تو میں نے ساٹھ کی دہائی کے آخیر سے چھوڑ دیے تھے لیکن ان لکیروں کے علم کا یقین رہا یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ایک علم انسان کو دیا ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مجھے اس علم پر بہت شک و شبہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ میں نے اپنے ہاتھ پر بھی نظر ڈالنا چھوڑ دیا۔ دل و دماغ میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بہت عرصہ بعد ایک دن ایم اے ملک کا یہ بیان پڑھ کر دل میں کچھ ڈھارس بندھی کہ کچھ سرکردہ دست شناسوں نے کہا ہے کہ شہید کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس کے ہاتھ کی لائف لائن کبھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ وہ مرتا نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد میرا یقین پامسٹری سے اٹھ گیا تھا لیکن اس بیان کے پڑھنے کے بعد پھر سے اس علم پر کچھ یقین سا ہونے لگا۔‘‘

حضرت مولانا لطف اللہؒ فرماتے ہیں:’’شاہ فیصلؒ سے حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی جو آخری ملاقات ہوئی، اس میں انھوں نے مولانا سے فرمایا تھا: ’’میں نے بھٹو کو ملاقات کے وقت صاف صاف بتا دیا تھا کہ پاکستان کے تین دشمن ہیں: قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک۔‘‘

مولانا سیّد محمد یوسف بنوریؒ نے بھٹو سے جو ملاقات لاہور میں کی تھی، اس میں آپ نے بھٹو سے کہا: ’’کیا آپ کو شاہ فیصل نے نہیں بتایا کہ قادیانی، کمیونسٹ اور مغربی ممالک، پاکستان کے تین دشمن ہیں اور انہی لوگوں نے سازش کر کے لیاقت علی خان کو مروایا تھا؟ مسٹر بھٹو نے مولانا سے کہا کہ کیا آپ مجھے بھی مروانا چاہتے ہیں؟ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ: ایسی موت کسی کو نصیب ہو تو اس پر ہزاروں زندگیاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ جو شخص شہادت کی موت مرتا ہے، وہ مرتا نہیں بلکہ زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔‘‘                                                                                                                                                (ہفت روزہ ختم نبوت کراچی 16 تا 23 مئی 2007ء)

مجاہد ختم نبوت جناب آغا شورش کاشمیریؒ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’پاکستان بنا تو مرزائی قادیان سے اٹھ کر لاہور آ گئے پھر انگریز گورنر سر فرانسس موڈی سے کوڑیوں کے بھائو ربوہ کی زمین حاصل کی اور وہاں سے پاکستان کے مختلف حصوں میں اپنی فرمانروائی کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔ مرزا ناصر تو عقل کے کورے ہیں لیکن مرزا محمود، کرنل لارنس کی سی شاطرانہ ذہنیت کے مالک تھے۔ انھوں نے پاکستان میں اقتدار کا خواب دیکھنا شروع کیا حتیٰ کہ بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ جب ان کی سیاسی پخت و پز خطرناک ہو گئی تو علما میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ تمام علما نے اکٹھے ہو کر مزاحمت کا بیڑا اٹھایا، مجلس عمل کی بنیاد رکھی، راست اقدام کیا لیکن اس وقت کے بدبخت حکمرانوں نے ملت اسلامیہ کے متفقہ مطالبے کو ٹھکرا دیا، مارشل لاء لگایا۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ سیکڑوں نوجوان گولیوں سے بھونے… منیر انکوائری کمیٹی نے تحقیقات شروع کیں تو خواجہ ناظم الدین نے کھلے بندوں کہا کہ وہ ظفر اللہ کو علیحدہ کرنے یا مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ماننے سے اس لیے قاصر تھے کہ پاکستان میں خوراک کا بحران تھا اور امریکہ ظفر اللہ کے بغیر ایک دانہ گندم دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ گویا اسلام، دانہ گندم پر قربان کر دیا گیا…

میں یہ اعلان کرتا رہا کہ مسٹر بھٹو ہی قادیانی امت کو ملت اسلامیہ سے خارج کر کے اقلیت قرار دیں گے۔ بحمدللہ یہی ہوا۔ آج یہ عظیم کارنامہ مسٹر بھٹو نے ہی سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ سے 13 جون کے عظیم نشریہ میں جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کیا اور اس طرح پورا کیا کہ آج پاکستان کے مسلمان ہی نہیں بلکہ کائنات کے مسلمان ان کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کی اجتماعی آواز کو پروان چڑھایا۔ تمام پارٹیوں کی متفقہ خواہش پر صاد کیا بلکہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں اس حد تک غیرت ایمانی اور جرأت اسلامی کا ثبوت دیا کہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے فرضی نبوتوں کا دروازہ بند ہو گیا… مسٹر بھٹو نے اس فیصلے اور اقدام سے پچھلی تمام حکومتوں کو مات دے دی ہے۔ حضور سرور کائناتصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ انھوں نے ختم نبوت کی پاسبانی کی ہے۔ ان کی عزت کا محافظ اللہ ہوگا اور وہ جلد ہی محسوس کریں گے کہ انھوں نے ایک مسئلہ حل نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔ آج ہر گھر میں مرد عورتیں اور بچے بچیاں ان کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ جو کام بڑے بڑے الحاج وزیراعظم نہ کر سکے اور نظریہ پاکستان کی اجارہ دار کھیپ سے نہ ہو سکا، وہ کام بھٹو نے کیا اور اس طرح کیا کہ ہمارے پاس ان کے لیے تشکر و امتنان کے الفاظ نہیں…‘‘

برطانوی نژاد نبوت کا ارتحال

نرغے میں آ گئے ہیں سیہ کار، زندہ باد

بھٹو کا نام زندۂ جاوید ہو گیا

شورش شکست کھا گئے اشرار، زندہ باد

(ہفت روزہ چٹان لاہور 14 ستمبر 1974ء ص 5,3)