Language:

قادیانی اداکاروں کے جنسی جمناسٹک کے غلیظ کرتب

بعض باتیں ناقابلِ یقین ہوتی ہیں اور حیرت انگیز حد تک ناقابل تسلیم، ایسی ہوش ربا کہ ہر ذی شعور اسے تسلیم کرنے میں تامل کا مظاہرہ کرے، عقل جواب دے جاتی اور آدمی حیرت کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاتا ہے لیکن یہ ٹھوس حقیقت ہوتی ہیں اور ان کا ناقابل تردید وجود ہوتا ہے۔

قادیانی جماعت کا بانی آنجہانی مرزا قادیانی جس نے بیک وقت نعوذ باللہ نبی، رسول، مہدی اور مسیح موعود ہونے کے دعوے کئے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی کو  عقل کے اندھے قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس دریدہ دہن نے اللہ تعالیٰ پر ایسا بیہودہ اور من گھڑت الزام لگایا جسے پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا، روح میں نشتر چھبتے اور دماغ مفلوج ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن قادیانی گروہ اس بیہودہ الزام کو نہ صرف دنیا کی ہر زبان میں شائع کرتا ہے بلکہ اس پر اتراتا نہیں تھکتا۔مرزا قادیانی اپنی کتاب’’کشتی نوح‘‘ میں لکھتا ہے۔ ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخرکئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابنِ مریم ٹھہرا‘‘۔ (کشتی نوح ص47، مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفہ 50از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کا ایک خاص مرید قاضی یار محمد اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعہ پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا، سمجھنے والے کیلئے اشارہ کافی ہے۔’’اسلامی قابانی ٹریکٹ نمبر34، از قاضی یار محمد ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے ایک انتہائی بارعب اور وجیہ نورانی شخصیت کے روپ میں مرزا قادیانی کو ورغلا پھسلا کر پٹایا۔ شہر سدوم لے جا کر اپنی رجولیت کی طاقت کا اظہار (یعنی عمل قوم لوط)کیا اور یوں جب مرزا کے مفعولی جذبات کی تسکین ہو گئی تو مرزا قادیانی نے اسے اللہ تعالیٰ سے منسوب کر دیا۔ جب یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے پر لے درجے کے کسی دریسہ دہن نے بھی اللہ تعالیٰ پر ایسا گھٹیا اور بد ترین کفریہ الزام لگانے کی جرأت تو درکنار سوچا تک نہیں۔ یہ ذلت و رسوائی صرف مرزا قادیانی کو نصیب ہوئی جس کا نقد انعام اسے دنیا میں بیت الخلاء میں موت کی صورت میں ملا ۔ سامراج کی گندی موری کی اینٹ نے آخری سانس فضلے کے ڈھیر میں لیا۔

؎          پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

آنجہانی مرزا قادیانی وحشیانہ جنسی جبلت کا مالک تھا۔ جن دنوں مرزا قادیانی کا محمدی بیگم سے یکطرفہ عشق عروج پر تھا  وہ اپنی گھریلو ملازمہ بھانو کے ذریعے محمدی بیگم کے گھر سے خصوصی طور پر حیض سے آلودہ اس کی شلوار منگواتا، اسے سونگھتا اور سکون پاتا۔ اس نے اپنی عشقیہ اور ہوسناک شاعری میں کھلے عام ان باتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس کی کتابوں میں خرافات، ہذیانات، مغلظات اور بکواسیات کے ’’نادرشہ پارے‘‘ پائے جاتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ جن کتابوں میں خرافات درج کی گئی ہیں ان کے نام خالص اسلامی رکھے گئے ہیں تاکہ سچا دین بدنام ہو۔ میرے خیال میں مرزا قادیانی کی کتب کے نام ڈسٹ بن، فلتھ ڈپو، آنت نگری، غلاظت کدہ اور خباثت پورہ ہونے چاہیں۔

معروف دانشور مرزا محمد حسین پہلے نہ صرف قادیانی تھے، بلکہ قادیانی قیادت کے اتنے قریب کہ مرزا محمودکے خاندان کی تمام مستورات کے اتالیق تھے۔ اندرون خانہ قادیانی قیادت کی اخلاقی باختگی کو دیکھا تو تڑپ گئے ۔مذہب کے نام پر اس حرام کاری و حرام خوری کو برداشت نہ کر سکے۔ غیرت و حمیت کے پیش نظر قادیانیت پر تین حرف بھیج کر مسلمان ہو گئے۔ اپنے مسلمان ہونے کی روداد میں لکھتے ہیں۔ ’’میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ قادیانیت، مذہب کے لبادہ میں اتنا خطر ناک اور شرمناک مذہب ہو گا۔ یہ سوچتے سوچتے صرف ایک رات میں میرے سر کے تمام بال گر گئے اور میں مستقل گنجا ہوگیا‘‘۔ موصوف خانہ ساز نبوت کے گھر کے بھیدی تھے۔ لہذا جو کچھ دیکھا، اسے اپنی معرکتہ العراء کتاب ’’فتنہ انکار ختم نبوت‘‘ میں لکھ دیا۔

عرصہ ہوا معروف عالم دین جناب ڈاکٹر اسرار احمد نے مرزا محمد حسین کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں موجود کئی جید علماء کرام، صاحبان، فہیم و فراست اور دانشوروں نے جناب مرزا محمد حسین سے درخواست کی کہ چونکہ آپ ایک عرصہ قادیانیوں کے خاص حلقہ میں رہے ہیں، آپ کو وہاں وی آئی پی کی حیثیت حاصل تھی اورآپ نے قادیانیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے‘ لہذا آپ ہمیں اس فتنہ کے متعلق کچھ بتائیں۔ مرزا محمد حسین پہلے تو کچھ ہچکچائے آخر کار حاضرینِ محفل کے پرزور اصرار پرمرزا محمد حسین کہنے لگے کہ میں قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود کی حمق کی حد تک پوجا کرتا تھا۔ جب اس کی سیاہ کاریوں کا پردہ چاک ہوا تو میرے اوساں و حواس جواب دے گئے۔ اور مجھے داخلی سطح پر اتنا گہرا صدمہ پہنچا کہ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ اس صدمہ کی شفت سے ایک ہی رات میں میرے سر کے بال غائب ہو گئے، پھر یہ حالت جسم تک محدود نہ رہی بلکہ دل کے نشیمن سے طائرایمان بھی پرواز کر گیا اور میں چند روز تک دہریت کی زندگی گزاری۔مرزا محمد حسین ہچکیوں اور سسکیوں میں کہنے لگے کہ وہ لرزہ خیز واقعہ جسے میں سنانا نہیں چاہتا تھا،  وہ یہ ہے کہ میں بچشم خود ہوش و حواس مرزا بشیر الدین محمود کو اپنی بیٹی ’’ امتہ الرشید‘‘ کے ساتھ زناء کرتے دیکھا۔ بچاری ابھی بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچی تھی۔ یہ بچی اپنے والد کی ہوسناکی کا شکار ہو کر بے ہوش ہو گئی۔ بعد ازاں یہ دیکھ کر مجھ پر سکتہ طار ہو گیا کہ بچی کے سرینوں کے نیچے قرآن مجید رکھا ہوا تھا۔ (نعوذ باللہ)

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی جماعت کے دوسرا خلیفہ مرزاناصر کی دوسری شادی کے سلسلہ میں بعض خاص باتوں کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ معروف قادیانی پروفیسر نصیر احمد کی ایک چھوٹی بہن  ڈاکٹر طاہرہ لجنہ(قادیانی عورتوں کی تنظیم) کی اہم عہدیدار تھی۔ پروفیسر صاحب اس کی شادی کیلئے کوشاں تھے۔ ڈاکٹرطاہرہ اپنے حسن و جمال کے حوالہ سے قادیانی حلقہ میں بے حد معروف تھی۔ علامہ سلطان اپنی تصنیف ’’قادیانیوں کی عریاں تصویریں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’دوشیزہ اپنے قاتلانہ نخروں کے ساتھ جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کے بڑے صاحبزادے مرزا لقما ن احمد(جو قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ مرزا طاہر احمد کے داماد ہیں) کو کئی بار‘‘درشن‘‘ دے چکی تھی۔ اس کی چشم نیم باز اور شوخ قہقے اس متوقع خلیفہ کے کلیجہ پر چھری چلا جاتے ۔ جب وہ خلیفہ کی رائل فیملی کے گھر آنکلتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے بارش کی رت میں کوئی مورنی ناچ رہی ہے۔‘‘

مرزا لقمان اور ڈاکٹر طاہرہ کا عشق پروان چڑھتا رہااور آخر مرزا لقمان نے شادی کی کوششیں شروع کردیں۔ مرزا طاہر احمد کے کانوں میں یہ بات پڑی تو اس نے مرزا ناصر سے بات کی اور کہا کہ اگر اس کی بیٹی کے مقابلہ میں کوئی دوسری سوکن لائی گئی تو وہ اس سلسلہ میں سخت قدم اٹھائیں گے۔ مرزا ناصر نے جماعت احمدیہ میں انتشار روکنے کی خاطر مرزا لقمان کو دوسری شادی کرنے سے سختی سے منع کر دیا۔

دوسری طرف پروفیسر نصیر احمد کے پاس ڈاکٹر طاہرہ کے لئے جو رشتہ آئے، ان کی لسٹ بنا کر اس نے اپنے پیر و مرشد مرزا ناصر کو پاس دعا کیلئے بھیجی کہ اس ضمن میں وہ مناسب نام تجویز فرما دیں۔ مرزا ناصر نے لسٹ میں درج شدہ تمام ناموں کو کاٹ کر سب سے اوپر اپنا نام لکھ دیا اور لسٹ پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں تھما دی۔  ’’بڈھا گھوڑا لال لگام‘‘ کے مصداق یہ شادی ہو گئی اور مرزا ناصر احمد اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ہنی مون منانے اسلام آباد چلے گئے۔ اس پر جماعت احمدیہ کے مخالف لاہوری گروپ نے طنزایہ کہنا شروع کر دیا کہ ’’پچ بیٹے نے تیار کروائی تھی لیکن بیٹنگ باپ نے شروع کر دی‘‘

؎          سب سے سبقت لے گئی بے حیائی آپ کی

تھوڑا عرصہ بعد جب مرزا ناصر کی وفات ہوئی تو نئی بیوی حمل سے تھی۔ خطرہ تھا کہ کہیں وراثت کے چکر میں طاہرہ کو ختم ہی نہ کروا دیا جائے۔ اس خدشہ کی طرف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مکرم مولانا اللہ وسایا صاحب نے ربوہ کی مسجد میں لائوڈ سپیکر خطبہ جمعہ میں اظہار فرمایا اور پھر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔مرزا طاہر احمد نے ایک سازش کے تحت ڈاکٹر طاہرہ کو ادویات کھلا کر اس کا حمل ضائع کروا دیا، جس پر طاہرہ کو خطر ناک حالت کے پیش نظر ۲۵جون ۱۹۸۲ ء کو اسلام آباد کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا، جہاں طاہرہ کے جسم سے خون کے لوتھڑے خارج ہوتے رہے۔ یہ سب کچھ مرزا طاہر نے اس لئے کیا کہ پیدا ہونے والابچہ ’’رائل قادیانی فیملی‘ ‘ کا ممبر کہلوائے گا اور جماعت احمدیہ کی اربوں روپے کی اندرون اور بیرون ممالک جائیداد میں سے وراثت کا دعویدار ہو گا۔ طاہرہ اس صدمے سے کئی ماہ نڈھال رہی قصر ربوہ کے شہزادوں نے حمل ضائع کروا دیا اور اپنے تئیں اس طرح مستقبل کے ایک متوقع وارث سے محفوظ ہو گئے۔ طاہرہ کی زندگی بچ گئی مگر ان اندہوناک واقعات کے نتیجہ میں پروفیسر نصیر احمد پر دل کا شدید دورہ پڑا وہ جان سے گئے۔ قدرت کا انتقام دیکھئے کہ اب میڈم طاہر سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں نائکہ کی حیثیت سے جسم فروشی کا اڈا چلا رہی ہے۔ فاعبترو یا اولی الابصار۔

بالکل یہی سلوک ڈاکٹر عبدالسلام کی سوتیلی ہمشیرہ معسودہ بیگم (جو ڈاکٹر عبدالسلام کے والد چوہدری محمد حسین کی پہلی بیوی سعیدہ بیگم کی اکلوتی بیٹی تھیں) کی زندگی میں ان کے ساتھ کیا گیا اسی طرح خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی دوسری بیوی لوئس جانسن جو لندن میں ڈاکٹر عبدالسلام کے تابوت کے ساتھ پاکستان آئی، سلام کی پہلی بیوی امتہ الحفیظ اور بیٹیوں عزیزہ ، آصفہ اور بشریٰ کی اشتعال انگیزی پر بے حد بد تمیزی کی۔

شہر تداد’’ربوہ‘‘ جسے سدوم، عمورہ اور ادمہ کا جڑواں بھائی بھی کہاجاتا ہے، آج کل اپنے مکینوں کی جنسی بد اعمالیوں اور بد عنوانیوں کی وجہ سے ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت کی نگا ہ ہو‘‘ کی زندہ تفسیر بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔سرفرانس موڈی نے اپنے ’’خود کا شتہ پودے‘‘ کو ضلع جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے پر انہ آنہ فی مرلہ کے حساب سے1033ایکڑ، 7کنال8مرلے زمین100سالہ لیز پر عطا کی۔ پہاڑیوں کے درمیان دفاعی لحاظ سے محفوظ عجمی اسرائیل کفار کی امیدوں اور سازشوں کا گڑھ ہے۔

قادیانی اس شہر کی کرامت یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں کبھی سیلاب نہیں آیا۔ مجاہد ختم نبوت آغا شورش کشمیری ؒ نے اس پر دہلا پھینکا تھا کہ لاہور کی ’’ہیرا منڈی‘‘ کی بھی یہی کرامت ہے۔ وہاں بھی کبھی سیلاب نہیں آیا۔ جن لوگوں نے گھر کے بھیدی جناب شفیق مرزا کی کتاب ’’شہر سدوم‘‘ پڑھی ہو، وہ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے لنکا ڈھا کر کس خوبصورتی سے ثابت کیا کہ یہ دونوں علاقے اپنے مزاج، گفتار اور کردار کے اعتبار سے آپس میں کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔ ربوہ، جہاں سے بدنام زمانہ جسٹس منیر ایسے عیاش اور بدقماش طبع قادیانی نواز صاحبان اقتدار کی راتوں کو رنگین و سنگین بنانے کیلئے’’لجنہ‘‘ کی ایماں شکن حسینان (قادیانی حوروں) کی شکل میں ’’مال‘‘ سپلائی ہوتا تھا اور ’’سلسلہ احمدیہ کے سلوک کی یہ منزل‘‘پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔  لجنہ سے تعلق رکھنے والی یہاں کی کسی بھی خوبرو حسینہ کو جنہوں نے مخصوص نقاب اوڑھے ہوتے ہیں ، بے نقاب کریں تو آپ کو اس کے چہرے پر دانتوں اور ناخنوں کے نشانات کثرت سے دکھائی دیں گے۔ یہ لڑکیاں جنہیں ربوہ میں’’ییلو کیب‘‘ کہا جاتا ہے ، ننگی ہوس کا بد ترین نمونہ ہیں۔ آپ انہیں قادیانی شدادوں کی جنت کی ’’حوریں ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لڑکیا آپ کو اکثر سرگودھا روڈ پر بسوں اور گاڑیوں میں سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو اپنے مصنوعی حسن اور اخلاق سے شکار کرتی نظر آئیں گی۔ ان کے شکار کئے ہوئے کئی نوجوان نوکری اور رشتہ کے کالچ میں متاع ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں قادیانی جماعت کے موجودہ خلیفہ مرزاطاہر نے اپنے خطبہ جمعہ میں لجنہ سے تعلق رکھنے والی تمام لڑکیوں کو ہدایت کی کہ وہ شہر بھر میں ہیروئن کے نشے میں دھت نوجوانوں کو خود’’فضل عمر ہسپتال‘‘ پہنچائیں ۔ جبکہ واقفان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں نشے کی لعنت کے فروغ کا بڑا سبب بذات خود ’’نشے کی یہ سانس لیتی پڑیاں‘‘ ہیں۔

؎          میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب                  اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

اگر آپ کو ربوہ جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو ربوہ کی ہر دیوار پر مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہارات بکثرت ملیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا شہر امراض مخصوصہ میں مبتلا ہے۔ دواخانہ حکیم نظام جان تو اسی کام کیلئے مخصوص ہے۔ اس کے بعض نسخوں میں سینکھیا ہونے کی وجہ سے کئی قادیانی نوجوان سہاگ رات کو ہی مر گئے۔1992ء میں ایسے ہی ایک واقعہ میں رائل فیملی کے ایک نوجوان کی ہلاکت پر وہاں کافی ہنگامہ ہوا۔

اس شہر کی جنس زدہ فضا عریانی و بے حیائی کی گرو سے اٹی پڑی ہے ۔جہاں بھی چار آدمی کھڑے ہیں ان میں اکثر بھر پور سیکسی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لئے’’شہر سدوم‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔