Language:

قادیانی جماعت کی پھیلائی ہوئی ایک غلط فہمی

دین کے پھیلانے میں اسلام نے کبھی بھی تلوار نہیں اُٹھائی ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے اب تک کبھی بھی جہاد کا مطلب اسلام کی تعلیمات میں یہ نہیں رہا کہ مذہب پھیلانے کے لئے غیر مسلموں کو تہہ تیغ کیا جائے ۔ انگریز کے اشارے پرمرزا قادیانی اور اس کے ٹولے نے آکر جہاد کے بارے میں غلط فہمی پھیلانا شروع کر دی۔       

نامور ادیب اور دانشور جناب پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:’’اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تلوار چلانا‘ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی ممنوع تھا (’’لا اکراہ فی الدین‘‘) اور آج بھی ممنوع ہے اور اسلام کی حمایت اور حفاظت کے لیے تلوار اٹھانا، ابتدائے اسلام میں بھی جائز تھا، آج بھی جائز ہے اور قیامت تک جائز رہے گا۔ مرزا قادیانی سے جو غلطی دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہوئی، وہ یہ تھی کہ اس نے اسلامی جہاد کے غلط معنی دنیا کے سامنے پیش کیے۔

(1)                    اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال                           دِیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

(تحفہ گولڑویہ ضمیمہ صفحہ42، مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ77،78 از مرزا قادیانی)

ان دونوں مصرعوں میں جو لفظ ’’اب‘‘ آیا ہے اگرچہ ادبی زاویۂ نگاہ سے اس کی تکرار بہت مذموم ہے لیکن مرزا قادیانی کی، اسلام سے ناواقفیت کا ثبوت دینے کے لیے بہت کافی ہے یعنی ان مصرعوںکا مطلب یہ ہے کہ دین کے لیے جنگ و قتال پہلے جائز تھا‘ اب جائز نہیں ہے۔ کس قدر عظیم الشان مغالطہ ہے جو اس نے دنیا کو دیا! کاش اسے تاریخ و فلسفۂ اسلام سے واقفیت ہوتی! دین کی اشاعت کے لیے جہاد کرنا پہلے کب جائز تھا؟ جو تم آج ناجائز قرار دے رہے ہو؟ اسلام پہلے کب بزورِ شمشیر پھیلایا گیا جو آج تم ناصح مشفق بن کر اس کی ممانعت کر رہے ہو؟ اگر جوع الارض کو تسکین دینے کے لیے یا ملوکیت اور شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے یا بے گناہ اقوام کو غلام بنانے کے لیے جہاد کیا جائے تو وہ جہاد ہی کب ہے؟ وہ تو غارت گری ہے۔ خود علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

جنگ شایانِ جہاں غارت گری است         جنگِ مومن سنتِ پیغمبری است

تعجب ہوتا ہے تعلیم یافتہ قادیانی حضرات پر کہ یہ لوگ کیونکر اس سفسطہ کا شکار ہو سکتے ہیں؟ کیا قادیانیوں میں کوئی ایسا روشن خیال انسان نہیں جو اسلامی فلسفہ و تاریخ کا مطالعہ کر کے اس مغالطہ کی دلدل سے باہر نکل سکے؟ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو سکتی ہے کہ اسلام میں جہاد کا معنی اور مفہوم کیا ہے؟ جنگ اور قتال اگر اس کا محرک ہوسِ ملک گیری اور استعماری حکمتِ عملی ہو تو یہ بات اسلام میں کبھی بھی جائز نہ تھی۔ پھر مرزا قادیانی اپنے اس ’’الہامی شعر‘‘ میں کس چیز کو حرام قرار دے رہا ہے؟ اسی بات کو نا‘ جو پہلے ہی سے حرام ہے تو حرام کو حرام قرار دینا یہ کون سی دانشمندی ہے؟ اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ خطرہ کے وقت بھی مسلمانوں کا اپنے مذہب کی حمایت میں تلوار اٹھانا حرام ہے‘ تو وہ مذہب اسلام سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دے رہا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سے قادیانی حضرات جو صورت پسند کریں اختیار فرما لیں‘ مرزا قادیانی کی علمی اور مذہبی پوزیشن بہرحال متزلزل ہو جائے گی۔ اگر پہلی صورت صحیح ہے تو مرزا قادیانی مغالطہ کا مرتکب ثابت ہوا اور دوسری صورت کو تسلیم کیا جائے تو اسلام کے اصولوں سے کورا نظر آتا ہے۔

اسی لیے حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو مرزا قادیانی اور مرزائیت دونوں کی غلط تعلیمات سے محفوظ کر لینے کے لیے اسرارِ خودی میں اس حقیقت کو آشکار فرما دیا ہے کہ اسلام میں جہاد کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی زندگی کا مقصدِ وحید اعلائے کلمۃ اللہ ہے اور اگر کوئی طاقت مسلمان کو اس کے اس مذہبی فریضہ کی تکمیل سے باز رکھنا چاہے یا اس میں مزاحمت کرے تو وہ حق و صداقت کی حمایت میں تلوار اٹھا سکتا ہے۔ لیکن وہ جہاد جس کا مقصد جوع الارض ہو‘ تسخیرِممالک ہو یا قتل و غارت گری ہو‘ اسلام میں بالکل حرام ہے۔ چنانچہ علامہ فرماتے ہیں:

ہر کہ خنجر بہرِ غیر اللہ کشید            تیغ اُو در سینۂ او آرمید

اب جو شخص بھی مرزا قادیانی کے مذکورہ بالا شعر کو پڑھے گا وہ لا محالہ یہی سمجھے گا کہ دین کی اشاعت کے لیے پہلے اسلام میں جنگ و قتال جائز تھا یعنی نعوذ باللہ قرونِ اولیٰ میں اسلام کی اشاعت اس کے پاکیزہ اصولوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے ہوئی اور تیرہ سو سال کے بعد جا کر مرزا قادیانی نے اس بات کو حرام قرار دیا ہے۔

معلوم نہیں مرزا قادیانی نے جہاد کے متعلق یہ غلط خیال کیوں پھیلایا۔ شاید حکومت برطانیہ کی نظروں میں عزت حاصل کرنے کے لیے، ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کی اشاعت کے لیے تلوار چلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی جائز نہ تھا اور نہ قرآن مجید کی اس صریح آیت کی موجودگی میں (لا اکراہ فی الدین) کسی کو بزورِ شمشیر مسلمان کرنا جائز ہو سکتا ہے اور اسلام تو سرتاپا معقولیت پسند مذہب ہے۔ وہ کب اس بات کو روا رکھ سکتا ہے کہ لوگوں کو تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے۔

اگر دین کے لیے جنگ و قتال، مرزا قادیانی سے پہلے حلال ہوتا تو ڈاکٹر آرنلڈ جو ایک سچا مسیحی تھا اور یقینا مسلم نہ تھا کس طرح اپنی مشہور کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ مرتب کر سکتا تھا؟ اس کتاب میں اس منصف مزاج عیسائی نے اسلامی تاریخ کی بناء پر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ اسلام اپنی ابتداء سے آج تک تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔‘‘