Language:

کادیانیت دانشوروں کی نظر میں حصہ اول

فتنہ قادیانیت کے بارے میں دانشوروں کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب:”سری نگر میں 13جولائی کی وحشیانہ فائرنگ سے سارے برصغیر کے مسلمانوں میںبھی رنج و اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے لاہور میں خان بہادررحیم بخش سیشن جج کی ملتان روڈ والی کوٹھی پر مشورہ کرنے کیلئے چند مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ جموں کی (Young Muslim Association) کی نمائندگی کرنے کے لئے اے آر ساغر بھی اس میں شامل تھے۔ اس میں طے پایا کہ ہندوستان بھر کے سربراہ آوردہ مسلمان اکابر کواکٹھا کرکے اس بارے میںکوئی متفقہ فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ25جولائی1931ء کو شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کمیٹی میں جوحضرات شامل ہوئے ہیں۔ ان میں علامہ اقبال، نواب سر ذوالفقار علی ، خواجہ حسن نظامی، نواب کنج پور، نواب باغبت، سید محسن شاہ، خاں بہادر، شیخ رحیم بخش، عبدالرحیم درد اور اے آرساغر کے نام سرفہرست تھے۔
بدقسمتی سے صدارت مرزا بشیرالدین محمود قادیانی نے کرڈالی اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بھی وہی بن بیٹھے۔ یہ قادیانیوںکی سوچی سمجھی چال ثابت ہوئی۔ اس کمیٹی کے قائم ہوتے ہی مرزا بشیرالدین محمود قادیانی نے ہر خاص و عام کو یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ ان کی صدارت میں اس کمیٹی کو قائم کر کے ہندوستان کے سرکردہ مسلمان اکابر نے ان کے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے مسلک پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس شرانگیز پروپیگنڈہ کے جلو میں قادیانیوں نے نہایت عجلت کے ساتھ اپنے مبلغین کو جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پھیلانا شروع کردیا۔ تاکہ وہ ریاست کے سادہ لوح عوام کو اپنے خود ساختہ ”نبی” کے حلقہ میں بگوش بنانا شروع کردیں۔ یہ مہم کافی کامیاب رہی۔ کئی دوسرے مقاما ت کے علاوہ خاص طور پر ”شوپیاں” میں مسلمانوں کی ایک خاص تعداد قادیانی بن گئی ۔ پونچھ کے شہر میںمسلمانوں کی اکثریت نے قادیانی مذہب اختیار کرلیا۔ یہ خبر سنتے ہی رئیس الاحرار مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری پونچھ شہر پہنچے اور اپنی خطیبانہ آتش بیانی سے قادیانیت کے ڈھول کا ایسا پول کھولا کہ شہر کی وہ آبادی جو مرزائی بن چکی تھی تقریباً ساری کی ساری تائب ہو کراز سر نومشرف بہ اسلام ہو گئی۔آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت کی آڑ میں، مرزا بشیرالدین محمود کی یہ چالبازیاں اور حرکات دیکھ کر علامہ اقبال نے شملہ والی کشمیر کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے کشمیر کے متعلق اس تحریک کی اعانت اور سرپرستی فرمانا شرع کردی جو مجلس احرار نے بطور خود نہایت جوش و خروش سے شروع کررکھی تھی”۔(شہاب نامہ)
چراغ حسن حسرت (مرحوم):”اسلام میں فتنوں کا ظہور قرون اولیٰ ہی سے ہوگیا تھا۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ اپنی قسم کا پہلا فتنہ تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا فتنہ ادعائے نبوت صد ر اول کے اس فتنے کی ایک ترقی یافتہ صورت معلوم ہوتا ہے”۔
پروفیسر محمد الیاس برنی:”قادیانی عقائد کیا ہیں؟ اعمال کیا ہیں ؟ منصوبے کیا ہیں؟ تدبیریں کیا ہیں؟ معاملات کیا ہیں؟ مسلمان اصل حالات سے بے خبر رہے۔ مسلمانوں کو خوش اور مطمئن رکھنے کے لئے جو مضامین شائع ہوتے تھے۔ وہی مضامین مسلمان سنتے رہے۔ اعتبار کرتے رہے، حتیٰ کہ اگرکسی غریب مولوی نے کچھ چوں چرا کی تو اس کو ٹال دیا کہ اختلاف کی ضرورت نہیں، اتحاد کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو کیا خبر کہ جو قادیانی ان کے اخلاق و احسان سے تقویت اور ترقی پارہا ہے۔ وہی فرقہ سب سے زیادہ اتحاد مٹارہا ہے۔ نہ صرف ان کو بلکہ دنیا کے مسلمانوں کو وہ کافر قرار دیتا ہے اور تکفیر بھی اجتہادی نہیں بلکہ الہامی کہ ”مسلمان مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اللہ اور رسول اللہ نہیں مانتے حالانکہ قادیانی عقیدے کے بموجب وہ سب کچھ ہیں۔ یہودیوں کے لئے موسیٰ ہیں۔ عیسائیوں کے لئے عیسیٰ ہیں۔ مسلمانوں کے لئے محمدۖ ہیں۔ قادیانیوں کے لئے احمد ہیں اور ہندوئوں کے لئے کرشن ہیں اور فی الجملہ تمام نبیوں کا مجموعہ ہیں اور جو ان کو نہ مانے وہ کافر بلکہ اکفر ہے”۔ ”قادیانیت اسلام کے حق میں ایک نئی قسم کا زہر ہے”۔
ابوالقاسم رفیق دلاوری (نامور مئورخ):”بہت کم مدعی ایسے گزرے ہیں جن کے دعوئوں کی تعداد د و یا تین تک پہنچتی ہو۔ البتہ ایک مرزا غلام احمد اس عموم سے مستشنیٰ ہے۔ اس شخص کے دعوئوں کی کثرت وتنوع کا یہ عالم ہے کہ ان کا استقصاء اگردوسروں کے لئے نہیں تو کم از کم میرے لئے بالکل محال ہے۔ تاہم سطحی نظر سے مرزا قادیانی کے جو دعوے اس کی کتابوں میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی تعداد چھیاسی تک پہنچتی ہے۔ میںنے دو ایک دعوے جو سب سے زیادہ دلچسپ تھے۔ اس خیال سے قلم انداز کرئیے کہ مباداخلیفہ المسیح میاں محمود احمد کی خاطر اطہر پر گراں گذریں۔ باقی چوراسی دعوے ہدیہ ناظرین ۔ ارشاد ہوتا ہے:
”میں محدث ہوں، امام الزمان ہوں، مجدد ہوں، مثیل مسیح ہوں، مریم ہوں، مسیح موعود ہوں، ملہم ہوں، حامل وحی ہوں، مہدی ہوں، حارث موعود ہوں، رجل فارسی ہوں، سلمان ہوں، چینی الاصل موعود ہوں، خاتم الانبیاء ہوں، خاتم الاولیاء ہوں، خاتم الخلفاء ہوں، حسین سے بہتر ہوں، حسنین سے افضل ہوں، مسیح ابن مریم سے بہتر ہوں، یسوع کا ایلچی ہوں، رسول ہوں، مظہر خدا ہوں، خدا ہوں، مانند خدا ہوں، نطفہ خدا ہوں، خدا کا بیٹا ہوں، خدا کا باپ ہوں، خدا مجھ سے ظاہر ہوا اور میں خدا سے ظاہر ہوا، تشریعی نبی ہوں، آدم ہوں،ثیث ہوں، نوح ہوں، ابراہیم ہوں، اسحاق ہوں، اسماعیل ہوں، یعقوب ہوں، یوسف ہوں، موسی ہوں، دائود ہوں، عیسیٰ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر اتم ہوں، منجی ہوں، ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں،موتی ہوں، حجر اسود ہوں، تمام انبیاء سے افضل ہوں، ذوالقرنین ہوں، احمد ہوں، بشارت اسم احمد کا مصداق ہوں، میکائیکل ہوں، بیت اللہ ہوں، رور گوپال یعنی آریوں کا بادشاہ ہوں، کلنکی اوتار ہوں، شیر ہوں، شمس ہوں، قمر ہوں، محی ہوں، ممیت ہوں، صاحب اختیارات کن فیکون ہوں، کاسرالصلیب ہوں، امن کا شہزادہ ہوں، جری اللہ ہوں، برہمن اوتار ہوں، رسل ہوں، اشجع الناس ہوں، معجون مرکب ہوں، داعی الی اللہ ہوں، سراج منیر ہوں، متوکل ہوں، آسمان اور زمین میرے ساتھ ہیں، وجیہ حضرت باری ہوں، زائد المجد ہوں، محی الدین ہوں، مقیم الشریعہ ہوں، منصور ہوں، مراد اللہ ہوں، اللہ کا محمود ہوں، (یعنی اللہ میری تعریف کرتا ہے) نور اللہ ہوں، رحمت اللعالمین ہوں،نذیر ہوں، منتخب کائنات ہوں، میںوہ ہوں جس کاتخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ میں ہو جس سے خدا نے بیعت کی۔ ”غرض دنیا جہان میں جو کچھ تھا، مرزا تھا۔
مولانا ماہر القادری:”مرزا قادیانی ایک مراقی مریض تھا کہ جو منہ میں آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے ۔ ان احمقوں اور جاہلوں کو کیا کہئے کہ جو ان ”ہذیانات” کو الہام و وحی سمجھے ہوئے ہیں اور اس قسم کے خرافات پڑھ کر بھی مرزائے قادیان کی عزت کرتے ہیں اور اس کی ذا ت سے ان کی عقیدت میں کمی نہیں آتی۔ یہ کفر و ضلالت کا وہ آخری درجہ ہے جہاں ذہن و قلب سے حق شناسی اور اچھے برے کے جاننے پہچاننے کی تمیز سرے سے جاتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے اقوال و تحریروں سے اس کی جو شخصیت سامنے آتی ہے ، وہ ایک ایسے پست و عامی شخص کی شخصیت ہے جو مراق ، ضعف باہ، سل، ذیابیطس اور سو حفظ کا مریض رہا ہے… کوئی شخص بحیثیت رسالت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں جو شخص ختم نبوت کا منکر ہوں، اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں”۔
”یہ وہ کفر ہے جس کی تبلیغ مسلمانوں میں قانوناً ممنوع ہونی چاہئے۔ جس طرح مسیلمہ کذاب کے نام کے ساتھ حضرت اور علیہ السلام کے القاب گوارا نہیں کئے جاسکتے، اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ تکریم و تعظیم اور احترام کے القاب برداشت نہیں کئے جاسکتے۔ ابوجہل اور ابولہب کافر تھے، منکر نبوت تھے، حضورۖ کے دشمن تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبت کے حریف اور مد مقابل نہیں تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ مدعی نبوت ہے۔ اس لئے اس کا موقف حضور خاتم النبیین علیہ الصلوة والسلام کے حریف کا موقف ہے۔ استغفر اللہ”۔
اشتیاق احمد نامور ناول نویس:”مرزا غلام احمد قادیانی عیار ترین شخص تھا جو تمام عمر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا”۔
”حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ اس حدیث پاک کے ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے اور اس سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہے جو اس حدیث کے ہوتے ہوئے اسے نبی مان لیں۔ کاش قادیانی حضرات غور کریں کہ وہ کس گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ مرنے کے بعد اس گمراہی کاانجام جہنم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ابھی وقت ہے ، غور کر لیں”۔
فتنہ قادیانیت کے بارے میں دانشوروں کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔
کلیم اختر (ممتاز محقق):”کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبروں کا شوشہ چھوڑ کر یہودی ایک سازش کے تحت کشمیر میں اپنا مشن قائم کرنا چاہتے ہیں اوراس کے لئے انہوں نے پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قادیانی گروہ کو ، جس کا اپنا مشن بھی تل ابیب میں قائم ہے، آلہ کار بنا رکھا ہے۔ یہودی اس گروہ کے ساتھ مل کرکشمیر میں اپنا مشن قائم کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازش کر رہے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے کشمیر میں ایک پیروکار خلیفہ نور الدین جموں والے کو حکم دیا تھا کہ وہ اس علاقے میں حضرت عیسیٰ کی قبر تلاش کرے تاکہ قادیانی اپنی نبوت کا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کشمیر کے عوام کی ایک غلط العام روایت کا سہارا لے سکیں۔1931ء میں جب قادیانی جماعت نے تحریک کشمیر میں حصہ لیا تھا تو قادیانیوں کے ان عزائم سے باخبر ہوکر ، کہ وہ کشمیر کو قادیانی ریاست کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اورقادیانیوں کے در پردہ عزائم کو بھانپ کر بے نقاب کردیا تھا”۔