Language:

کادیانیت سیاستدانوں کی نظر میں

فتنہ قادیانیت کے بارے میں سیاستدانوں کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔

نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم:’’ میں مسیلمہ کذا ب سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی تک سب کو کاذب سمجھتا ہوں‘‘۔

مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ:’’قادیانی آج پاکستان میں بلکہ پورے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر حملہ آور نظر آتے ہیں۔ انہیں شاید علم نہیں کہ ایک ادنیٰ سا مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر اپنی جان قربان کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے ارباب جل و عقد کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس قابل نہیں کہ آپ کی سرپرستی کروں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ مجھے حکم دیں کہ اس ملک سے قادیانی فتنہ کو ختم کرنے کیلئے تم نے تختہ دار پر لٹکنا ہے تو میں لٹک جائوں گا‘‘۔

مولانا فضل الرحمان:’’مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے، فرقہ بندی اور جہاد کے جذبہ کو ختم کرنے کے لئے فتنہ قادیانیت کو جنم دیا گیا ہے۔ مرزاقادیانی اپنے عقائد کے لحاظ سے غلاظت اور گندگی کا ڈھیر تھا‘‘۔

ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خاں:’’قادیانی مسئلہ کا قانونی حل فراہم ہوگیا ہے لیکن عملاً اس قانون کو نافذ کرنا باقی ہے۔ میرے خیال میں یہ کام صرف ایسی حکومت کرسکے گی جو قادیانیون کی ممنون احسان نہ ہو اور جوملکی سا  لمیت کو اپنے اقتدارکی خواہش پر ترجیح دیتی ہو اور اسلامی قدروں کے بارے میں فی الحقیقت مخلص ہو‘‘۔

قاضی حسین احمد مرحوم (سابق امیر جماعت اسلامی):’’حکومت پاکستان ایرانی بہائیوں کی طرح پاکستان میں مرزائیوں کو خلاف قانون قرار دے۔ جن سیاسی جماعتوں میں قادیانی موجود ہیں، ان سے اتحاد کرنے سے ملک میں اسلامی انقلاب نہیں آسکتا‘‘۔

مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ :’’سقوط مشرقی پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار سو فیصدی قادیانی ہیں۔اس سلسلہ میں مرزا ایم ایم احمد کا کرداربہت گھنائونا ہے۔ اس شخص نے انتہائی باغیانہ کردار ادا کیا۔ مرزائیت، یہودیت کی گود میں پروان چڑھ رہی ہے اور پاکستان میں تل ابیب کا ایجنٹ ربوہ ہے۔ اس کی معرف جوچاہیں کرواتے ہیں۔ مذہب کاتو ان لوگوں نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی خطرناک سیاسی تحریک ہے جو مسلمانوں کے اندر رہ کر مسلمانوں کی تباہی وبربادی کا سامان پیدا کر رہی ہے‘‘۔

مولانا سمیع الحق (سابق سینٹر):’’قادیانیت ایک ایسا ضرب کاری تھا جس کے مہلک اثرات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔ اس قدر اہم مسئلہ پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ مرزا طاہر کی پاکستان دشمنی کی مثال لندن کنونشن میں اسکی ایک تقریر سے دی جاسکتی ہے۔ جس میں مرزا طاہر نے کہا۔’’اللہ تعالیٰ اس ملک پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو تباہ کر دے گا۔ آپ بے فکر رہیں چنددنوں میں آپ خوشخبری سنیں گے کہ یہ ملک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوگیا ہے‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری:’’ہم پوری بصیرت کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بحمد اللہ تعالیٰ ہمیں آپ (مرزا طاہر قادیانی خلیفہ) کے اور آپ کے مذہب کے جملہ پیروکاروں کے کفروضلالت میں کوئی شک ہے ، نہ مرزا قادیانی کے کفروارتداد میں۔ جس طرح ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر پختہ یقین ہے۔ اسی طرح ہمیں ان تمام لوگوں کے کافر ہونے کا بھی پختہ یقین جو مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت و مسیحیت کو کسی بھی معنی میں درست مانتے اور اس پر اعتقاد رکھتے ہیں‘‘۔

فتنہ قادیانیت کے بارے میںسیاستدانوں کے ایمان افروز مشاہدات و تاثرات اور انکشافات درج کئے جاتے ہیں۔

محمد احمد میرواعظ کشمیر:’’اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ فیصلہ مقدمہ بہاولپور کے متعلق دوسری رائے نہیں رکھ سکتا۔ حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگوں اورعلماء نے اس مقدمہ کی پیروی کرکے دین اسلام کی ایک گرانقدر خدمت انجام دی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔

شیخ مجیب الرحمان (عوامی لیگ مشرقی پاکستان):’’اگر میں برسراقتدار آگیا تو ڈپٹی چیئرمین پلاننگ ایم ایم احمد قادیانی کو مشرقی پاکستان کے ساتھ معاشی ناانصافیوں کے الزام میں سرنگا پٹم کے سٹیڈیم میں الٹالٹکا کر پھانسی دوں گا‘‘۔

’’جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو ہر پاکستانی خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن قادیانی فخرسے گردن اکڑا کر چلتے تھے۔ ابھی تک ہزاروں گواہ موجود ہیں۔ جنہوںنے دیکھا کہ بنگلہ دیش بن گیا تو ربوہ اور لاہور میں مرزائیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور مٹھائی تقسیم کی، اپنے مکانوں پر جشن چراغاں کیا اور شب بھر سڑکوں پر رقص کرتے رہے‘‘۔