Language:

قادیانیوں کے صد سالہ جشن پر پابندی – عدالتی کاروائی

23 مارچ 1989ء کو قادیانیوں نے قادیانیت کا جشن صد سالہ منانے کا پروگرام بنایا‘ کیونکہ ایک صدی قبل یعنی 23مارچ 1889ء کو مرزا قادیانی نے لدھیانہ (بھارت) میں اس فتنہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جھوٹی نبوت کا جشن منانے کے لیے ربوہ میں خصوصی انتظامات کیے گئے۔

            پورے ربوہ اور گردونواح کی پہاڑیوںاور عمارتوں پر چراغاں کرنے کے لیے لائٹ ڈیکوریشن پارٹیوں سے گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ فیصل آباد ‘ راولپنڈی اور جھنگ وغیرہ سے سامان کرایہ پر حاصل کرنے کے لیے معاہدے کیے‘ ہزاروں روپیہ ایڈوانس دیا اور اشٹام پیپرز پر تحریریں حاصل کریں۔

            بجلی بند ہونے کی صورت میں وسیع پیمانہ پر جنریٹروں کا انتظام کیا گیا۔

            لاکھوں مٹی کے دیئے ٹرکوں پر منگوائے‘ جنہیں سرسوں کے تیل سے جلانا تھا۔

            ربوہ میں سو گھوڑے‘ سوہاتھی اور سو ملکوں کے جھنڈے لہرانے کا انتظام کیا۔

            اس موقع پر ربوہ میں عورتوں اور مردوں ے لیے فوجی وردی تیار کی گئی ‘ جسے پہن کر انہیں عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

            اس کے علاوہ تقسیم مٹھائی‘ جشن‘ جلسے اور دیگر تقریبات وغیرہ کے لوازمات کا اہتمام کیا۔

مسلمانوں کو جب جھوٹے نبی کی جھوٹی نبوت کے جشن کا پتہ چلا تو وہ غیرتِ ایمانی سے بپھر گئے اورقریب تھا کہ اسلامیان پاکستان ربوہ پر چڑھ دوڑتے اور اینٹ سے اینٹ بجا دیتے‘ لیکن عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے فوراً حالات کو کنٹرول میں لیا اور اعلیٰ حکام سے رابطہ قائم کیا۔ مسلمانوںکے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے‘ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے جشن پر پابندی عائد کر دی۔ قادیانیوں کا جشن سوگ میں تبدیل ہو گیا۔ جھوٹی نبوت پر اوس پڑ گئی۔ اسلام فتح یاب ہوا اور کفر کو شکست فاش ہوئی۔

 مرزائیوں نے اس پابندی کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کے حکم’’پابندی جشن‘‘ کو چیلنج کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے عزت مآب جسٹس خلیل الرحمن صاحب کے پاس کیس لگا۔ ہائیکورٹ کے قابل احترام جج نے مرزائیوں کو کہا کہ اب جشن کا وقت گزر گیا ہے‘ اب یہ رٹ بعد از وقت ہے۔ مگر مرزائی مصر تھے کہ نہیں جناب‘ فیصلہ ہونا چاہیے کہ یہ پابندی جائز تھی یا ناجائز۔مرزائیوں کی طرف سے اصرار پر عدالت میں کارروائی شروع ہوئی۔

مرزائیوں کے وکیل مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا پنڈورہ بکس لے کر آئے۔ ادھر پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت و ناموس کے تحفظ کی سعادت و وکالت کے لیے قدرت نے جناب مقبول الٰہی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نذیر احمد غازی صاحب کو منتخب فرمایا۔ جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اور جناب عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ بھی مرزائیت کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔ اس موقع پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو اللہ رب العزت نے پھر توفیق بخشی۔ ملتان مرکز سے مرزائیت کی کتابوں کا سیٹ لے کر شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا ‘لاہور کے حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور سندھ سے مولانا احمد میاں حمادی پہنچ گئے۔ اللہ رب العزت جزائے خیر دے‘ لاہور کے رفقاء کرام جناب محمد متین خالد‘ جناب طاہر رزاق‘ جناب سید محمد صدیق شاہ‘ سید منظور الحسن شاہ‘ جناب محمد صابر شاکر اور ننکانہ صاحب کے مہر محمد اسلم ناصر ایڈووکیٹ‘ قدیر شہزاد‘ چوہدری محمد اختر اور دوسرے رفقاء کو کہ وہ ہر روز عدالتی کارروائی میں دیوانہ وار دلچسپی لیتے رہے۔ پاکستان کے نامور عالم دین علامہ خالد محمود صاحب نے بھی دن رات ایک کر دیا۔

مرزائیوں کے جواب الجواب کا جب مرحلہ آیا تو قدرت نے جناب نذیر احمد غازی صاحب اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو توفیق دی۔ ان کے رفقاء و متوسلین جناب پروفیسر سید قمر علی زیدی‘ جناب پروفیسر ملک خالق داد‘ جناب مسعود ایڈووکیٹ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ محترم مولانا اللہ وسایا اور محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب نے پوری رات جاگ کر جواب الجواب تیار کیا۔ غازی نذیر احمد عدالت میں پیش ہوئے اور گھنٹوں دلائل و براہین کے ساتھ نپے تلے انداز میں مرزائیوں کا جواب الجواب دیا تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ مرزائیت پر اوس  پڑ گئی۔ ان کے چہرے ان کے دلوں کی طرح سیاہ ہو گئے اور مورخہ 22 مئی 1991ء کو سماعت مکمل ہو گئی۔ عالی جناب عزت مآب جسٹس خلیل الرحمن صاحب نے مورخہ 17 ستمبر 1991ء کو قادیانیوں کی رٹ خارج کری۔فیصلہ سنتے ہی جھوٹی نبوت کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔

 قادیانیوں نے ہائی کورٹ کے ان فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیلیں دائر کیں۔ جوں جوں فیصلے ان کے خلاف ہوتے گئے‘ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرتے رہے۔ 1988ء سے 1992ء تک کل اپیلوں یا رٹ پٹیشنز کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ ان دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد افضل ظلہ تھے۔ انہوں نے ان کیسوں کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا۔ جو جسٹس شفیع الرحمن ‘ جسٹس عبدالقدیر چوہدری‘ جسٹس محمد افضل لون‘ جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ مقدم الذکر اس بنچ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ تاریخ مقرر ہوئی۔ قادیانیوں نے مسٹر فخر الدین جی ابراہیم بوہری کو وکیل کیا تھا۔پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے اٹارنی جنرل مسٹر عزیز اے منشی کے علاوہ چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل اور وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے ماہر قانون دان جناب سید ریاض الحسن گیلانی پیش ہوئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے مکرم محترم جناب راجہ حق  نواز صاحب وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور فدائے ختم نبوت‘ محافظ ناموس مصطفی جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پیش ہوئے۔ قادیانی اپنے اثرورسوخ‘ مال و دولت پر نازاں تھے اور مسلمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناتے رب کریم کے حضور اس کی رحمت کے طلب گار تھے۔ حق  و باطل کا معرکہ ہوا۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ ان تمام کیسوں میںفریق رہی ہے‘ حتیٰ کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوںمیں تو‘ مدعی بھی‘ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مجاہد مبلغ مولانا نذیر احمد تونسوی تھے۔ سپریم کورٹ میںسماعت کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بزرگ رہنما مولانا احمد میاںحمادی اور مولانا اللہ وسایا راولپنڈی پہنچ گئے۔ ان کی معاونت کے لیے مولانا محمد عبداللہ‘ قاری محمد امین‘ حکیم قاری محمد یونس‘ اراکین شوریٰ‘ مجاہد مبلغ مولانا عبدالرئوف الازہری اور مولانا محمد علی صدیقی مبلغ راولپنڈی کمر بستہ ہوگئے۔ مولانا قاری احسان الحق‘ مولانا محمد شریف ہزاروی‘ شیخ الحدیث مولانا عبدالرئوف ‘ مولانا نذیر احمد فاروقی‘ اسلام آباد کے جناب کے ۔ ایم ۔ سلیم‘ مولانا قاری زرین احمد اور دوسرے حضرات راولپنڈی سے اپنے رفقاء سمیت ہر روز عدالت عظمیٰ میں تشریف لاتے۔ مسلمانوں کی طرح قادیانیوں نے بھی اس میں گہری دلچسپی لی۔ کارروائی کے آغاز سے عدالت کا ہال اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ناکافی ہوتا۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب بھی سماعت کے دوران اسلام آباد تشریف لائے اور مولانا اللہ وسایا صاحب سے نہ صرف کیس کی تفصیلات دریافت فرمائیں‘ بلکہ ہر قسم کی سرپرستی و اعانت سے نوازا۔ 30 جنوری 1993ء سے 3 فروری تک مسلسل پانچ روز سماعت ہوئی۔ میجر ریٹائرڈ میرافضل اور میجر ریٹائرڈ محمد امین منہاس نے بھی مسلمانوںکی طرف سے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

قادیانیوں کی بحث ہوگئی تو جناب ریاض الحسن گیلانی کا بیان ہوا۔بڑا معتدل‘ واضح اور ایمان پرور بیان تھا۔ جناب محمد اسماعیل قریشی نے اپنی ایمانی جرأت سے عدالت عظمیٰ کے درودیوار کو مسحور کیا۔ جناب عزیز اے منشی اٹارنی جنرل آف پاکستان نے متعدد سپریم کورٹوں کے فیصلہ جات‘ امریکہ‘ بھارت‘ آسٹریلیا‘ فرانس کی عدالتوںکے حوالہ جات دے کر قانونی لحاظ سے جنگ جیت لی۔ آخری دن پھر قادیانی جماعت کے وکیل فخر الدین جی ابراہیم بوہری نے بحث کو سمیٹا … عدالت عظمیٰ نے اعلان کیا کہ کوئی شخص اگر عدالت کی معاونت کے لیے اپنا تحریری بیان داخل کرانا چاہے‘ تو اجازت ہے۔ عزت مآب جناب راجہ حق نواز صاحب پہلے ہی عدالت سے درخواست کر چکے تھے کہ وہ تحریری بیان داخل کرائیںگے‘ چنانچہ راجہ صاحب اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیرحضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے علیحدہ علیحدہ اپنے تحریری بیانات عدالت کو بھجوائے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا بیان ’’عدالت عظمیٰ کی خدمت میں‘‘ کے نام سے عالمی مجلس کے مرکزی دفتر نے شائع کرکے ہزاروںکی تعداد میں شائع کیا۔ راجہ صاحب نے قانونی طور پر اور حضرت لدھیانویؒ نے شرعی اور عقلی دلائل سے جہاں اہل اسلام کی بھرپور وکالت فرمائی‘ وہاں عدالت عظمیٰ کے لیے بھی یہ دونوں بیانات بڑی ہی وقعت رکھتے ہیں۔

3 فروری 1993ء کو مقدمہ کی سماعت مکمل ہو کر فیصلہ محفوظ ہوا۔3 جولائی 1993ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ دیا‘ جس کی رو سے تمام قادیانی درخواستیں‘ اپیلیں‘ رٹیں خارج کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے بھی قادیانیوں کے کفر پر مُہر لگا دی۔ قادیانیت رسوا ہوئی‘ اسلام اور مسلمان جیت گئے۔پانچ جج حضرات میںسے چار جج حضرات نے متفقہ فیصلہ سے قادیانی موقف کو مسترد کیا اور عزت مآب جسٹس عبدالقدیر چوہدری کے مبارک ہاتھوں سے لکھے ہوئے فیصلہ سے اتفاق کیا۔ قابل صد احترام جناب جسٹس عبدالقدیر چوہدری کے تحریر کردہ فیصلہ کے چند موٹے موٹے نکات پیش خدمت ہیں:

m         امتناعِ قادیانیت آرڈیننس بنیادی حقوق کے خلاف نہیں۔

m         احمدیوں کی اس خواہش نے ‘ کہ مسلمانوںکی جملہ قابل احترام شعائر پر کسی نہ کسی طرح قبضہ کر لیا جائے‘ اس لیے جنم لیا‘ کہ وہ اپنے مذہب کو مشکوک انداز اور پیغام کی صورت میں اسلام کے طور پر پھیلانا چاہتے تھے۔

m         یہ قانون محض انہیں ایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جن پر ان کا کسی قسم کا حق نہیں‘ از روئے قانون ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

 m        مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں میں رسول اکرمؐ کی عظمت و شان کو گھٹانے کی کوشش کی بلکہ بعض مواقع پر ان کا مذاق بھی اڑایا۔

m         جہاں تک رسول اکرمؐ کی ذات گرامی کا تعلق ہے‘ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے:’’ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو‘ لازم ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے ساتھ اپنے بچوں‘ خاندان‘ والدین اور دُنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان‘ باب حب الرسول من الایمان)۔کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے اگر وہ ایسا توہین آمیز مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے‘ پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکے؟

m         جب کوئی احمدی یا قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ‘ بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے‘ یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرمؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز امن عامہ کو خراب کرنے کا موجب بن سکتی ہے‘ جس کے نتیجہ میں جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔

m         ان پر لازم ہے کہ وہ آئین و قانون کا احترام کریں اور انہیں اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی یا توہین نہیں کرنی چاہیے‘ نہ ہی ان کے مخصوص خطابات‘ القابات و اصطلاحات استعمال کرنے چاہئیں نیز مخصوص نام مثلاً مسجد اور مذہبی عمل مثلاً اذان وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور لوگوں کو عقیدہ کے بارے میں گمراہ نہ کیا جائے یا دھوکہ نہ دیا جائے۔

m         ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ احمدیوں کو اپنی شخصیات‘ مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب‘ القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوئوں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار‘ امن وامان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرامن طور پر مناتے ہیں۔ انتظامیہ جو امن وامان قائم رکھنے اور شہریوں کے جان و مال نیز عزت و آبرو کا تحفظ کرنے کی ذمہ دار ہے‘ بہر حال مذکورہ بالا اقدار میں سے کسی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مداخلت کرے گی۔

 یہ فیصلہ ایمان پرور بھی ہے‘ حقائق افروز بھی۔ اس فیصلہ سے ایک بار پھر عدلیہ کے عزت و وقار میں مزید در مزید اضافہ ہوا۔ فیصلہ کا ایک ایک حرف قدرت کی طرف سے مرزائیت کی رگِ جان کے لیے نشتر ہے۔ پڑھئے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجئے۔ تائید رحمتِ حق اور شفاعتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ امین بحرمۃ النبی الامی الکریم صلی  اللہ علیہ وسلم۔