Search By Category
قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر دیوبندی متکبہ فکر کا موقف حصہ سوم
اب فقہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں جن سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا حکم واضح ہوتا ہے :
1۔ علامہ درد یر مالکی شرح کبیر میں باغیوں کے احکام میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’ان کا کھانا پانی بند کر دیا جائے ۔ الا یہ کہ ان میں عورتیں اور بچے ہوں۔‘‘(4،299)
2۔ کوئی قاتل اگر حرم مکہ میں پناہ گزین ہوجائے ۔اس سلسلہ میں ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ جب کوئی حرم سے باہر قتل کرکے حرم میں داخل ہوتو جب تک حرم میں ہے اس سے قصاص نہیںلیا جائے گا مگر نہ اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے۔ نہ اس کو کھانا دیا جائے یہاں تک کہ وہ حرم سے نکلنے پر مجبور ہوجائے۔‘‘(احکام القرآن2،21 (
3۔ درمختار میں ہے کہ: ترجمہ: ’’ناصحی نے فتویٰ دیا کہ ہر موذی کا قتل واجب ہے اور ’’شرح وہبانیہ‘‘ میں ہے کہ تعزیر یوں بھی ہوسکتی ہے کہ شہر بدرکردیا جائے اور ان کے مکان کا گھیرائو کیا جائے۔ انہیں مکان سے نکال باہر کیا جائے اور مکان ڈھادیا جائے۔‘‘
4۔ ابن عابدین الشامی در مختار ، جلد3صفحہ272میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’احکام السیاسۃ میں ’’المنتقی‘‘ سے نقل کیا ہے کہ جب کسی کے گھر سے گانے بجانے کی آواز سنائی دے تو اس میں داخل ہوجائو کیونکہ جب اس نے یہ آواز سنائی تو اپنے گھر کی حرمت کو خود ساقط کردیا ہے اور بزازیہ کے کتاب الحدود و نہایہ کے باب الغصب اور درایہ کے کتاب الجنایات میںلکھا ہے کہ صدر الشہید نے ہمارے اصحاب سے نقل کیاہے کہ جو شخص فسق و بدکاری اور مختلف قسم کے فساد کا عادی ہوا ایسے شخص پر اس کا مکان گرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ مفسدوں کے گھر میں گھس جانے میں بھی مضائقہ نہیں۔ حضرت عمرؓ ایک نوحہ گر عورت کے گھر میں گھس آئے اور ا س کے ایسا درّا مارا کہ اس کے سر سے چادر اتر گئی اور اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حرام میں مشغول ہونے کے بعد اس کی کوئی حرمت نہیں رہی اور یہ لونڈیوں کی صف میں شامل ہوگئی۔ حضرت عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شرابی کے مکان کو آگ لگادی تھی۔ صفار زاہد کہتے ہیں کہ فاسق کا مکان گرا دینے کا حکم ہے۔ ‘‘
5۔ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، جلد4، صفحہ107، باب التعزیر میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’اور یہ کہ اس امر کی تصریح ہے کہ مارنا ایسی تعزیر ہے جس کا انسان اختیار رکھتا ہے خواہ محتسب نہ ہو۔ ’’المنتقٰی ‘‘ میں اس کی تصریح کی گئی ۔‘‘یاد رہے کہ اس قسم کے مقاطعہ کا تعلق درحقیقت بغض فی اللہ سے ہے جس کو حضرت محمدرسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے احب الاعمال الی اللّہ فرمایا ہے۔ (کما فی روایت ابی ذر فی کتاب السنۃ عند ابی داؤد)
بغض فی اللہ کے ذیل میںا مام غزالی ؒ احیاء العلوم ، جلد2صفحہ167میں بطور کلیہ لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’اول کافر، پس اگر کافر حربی ہو تو اس بات کا مستحق ہے کہ قتل کیا جائے۔یا غلام بنا لیا جائے اور یہ ذلت و اہانت کی آخری حد ہے۔ دوم صاحب بدعت جو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہے۔ پس اگر بدعت حد کفر تک پہنچی ہوئی ہو تو ا س کی حالت کافر ذمی سے بھی سخت تر ہے کیونکہ نہ اس سے جزیہ لیا جاسکتا ہے اور نہ ا س کو ذمی کی حیثیت دی جاسکتی ہے اور اگر بدعت ایسی نہیں جس کی وجہ سے اس کو کافر قرار دیا جائے تو عند اللہ اس کا معاملہ کافر سے لا محالہ اخف (ہلکا ) ہے ۔ مگر کافر کی بہ نسبت اس پر نکیر زیادہ کی جائے گی۔ کیونکہ کافر کا شر متعدی نہیں اس لئے کہ مسلمان کافر کو ٹھیٹ کافر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اس کے قول کو لائق التفات ہی نہیں سمجھیں گے ……الخ۔
ردالمختار جلد3صفحہ298میں قرامطہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ترجمہ: ’’مذاہب اربعہ سے منقول ہے کہ انہیں اسلامی ممالک میں ٹھہرانا جائز نہیں۔ نہ جزیہ لے کہ نہ بغیر جزیہ کے۔ نہ ان سے شادی بیاہ جائز ہے نہ ہی ان کا ذبیحہ حلال ہے… حاصل یہ ہے کہ ان پر زندیق منافق اور ملحد کا مفہوم پوری طرح صادق آتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس خبیث عقیدہ کے باوجود ان کا کلمہ پڑھنا انہیں مرتد کا حکم نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ تصدیق نہیں رکھتے اور ان کا ظاہری اسلام غیر معتبر ہے۔ جب تک کہ ان تمام امور سے جو دین اسلام کے خلاف ہیں،برأت کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ وہ اسلام کا دعویٰ اور شہادتین کا اقرار تو پہلے سے کرتے ہیں (مگر اس کے باوجود پکے بے ایمان اور کافر ہیں) اور ایسے لوگ گرفت میں آجائیں تو ان کی توبہ اصلاًقبول نہیں۔‘‘
فقہ حنفی کی معتبر کتاب معین الحکام بسلسلہ تعزیر ایک مستقل فصل میں لکھا ہے کہ: ترجمہ: ’’اور تعزیر کسی معین فعل یا معین قول کے ساتھ مختص نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان تین حضرات کو (جو غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور ) جن کا واقعہ اللہ نے قرآن عظیم میں ذکر فرمایا ہے۔ مقاطعہ کی سزا دی تھی۔ چنانچہ پچاس دن تک ان سے مقاطعہ رہا۔ کوئی شخص ان سے بات تک نہیں کرسکتا تھا۔ ان کا مشہور قصہ صحاح ستہ میں موجود ہے۔ نیز رسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جلا وطنی کی سزا بھی دی۔ چنانچہ مخنثوں کو مدینہ سے نکالنے کا حکم دیاا ورانہیں شہر بدر کردیا۔ اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی مختلف تعزیزات جاری کیں۔ ہم ان میں سے بعض کو جو احادیث کی کتابوں میںو ارد ہیں یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ہمارے اصحاب قائل ہیں اور بعض پر دیگر ائمہ نے عمل کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ضبیع نامی ایک شخص کو مقاطعہ کی سزا دی ۔ یہ شخص ’’الذاریات‘‘ وغیرہ کی تفسیر پوچھا کرتا تھا۔ اور لوگوں کو فہمائش کیا کرتا تھا کہ وہ مشکلات قرآن میں تفقہ پیدا کریں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کی سخت پٹائی کی اور اسے بصرہ یا کوفہ جلا وطن کردیا اور اس سے مقاطعہ کا حکم فرمایا۔ چنانچہ کوئی شخص اس سے بات ۔۔۔۔تک نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ تائب ہوا اور وہاں کے گورنر نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اس کے تائب ہونے کی خبر لکھ بھیجی۔ تب آپ نے لوگوں کو اجازت دی کہ اس سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے نصر بن حجاج کا سر منڈوا کر اسے مدینہ سے نکال دیا تھا جب کہ عورتوں نے اشعار میں اس کی تشبیب شروع کردی تھی اور فتنہ کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ عرنیہ کے افراد کو جو سزادی (اس کا قصہ صحاح میں موجود ہے ) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں جوبدفعلی کراتا تھاصحابہ سے مشورہ کیا۔صحابہ رضی اﷲ عنہم نے مشورہ دیا کہ اسے آگ میں جلادیاجائے ۔حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کو یہ حکم لکھ بھیجا۔بعدازاں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ اور ہشام بن عبدالملک ؒنے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں اس قماش کے لوگوں کو آگ میں ڈالا۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے مرتدین کی ایک جماعت کو آگ میں جلایا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شراب کے مٹکے توڑنے اور اس کے مشکیز ے پھاڑ دینے کا حکم فرمایا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ان ہانڈیوں کو توڑنے کا حکم فرمایا جن میں گدھوں کا گوشت پکایا گیاتھا۔پھر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ انہیں دھوکر استعمال کرلیا جائے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔یہ واقعہ دونوں باتوں کے جواز پر دلالت کرتاہے ۔کیونکہ ہانڈیوں کو توڑڈالنے کی سزاواجب نہیں تھی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس مکان کو جلادینے کا حکم فرمایا جس میں شراب کی خریدوفرخت ہوتی تھی ۔ حضر ت سعد بن ابی وقا ص رضی اﷲ عنہ نے جب رعیت سے الگ تھلگ اپنے گھر ہی میں فیصلہ کرنا شروع کیاـ تو حضر ت عمررضی اللہ عنہ نے ان کا مکا ن جلا ڈالا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عما ل کے مال کا ایک حصہ ضبط کر کے مسلما نو ںمیں تقسیم کر د یا۔ ا یک شخص نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی مہر پر جعلی مہربنوالی تھی اور بیت المال سے کوئی چیز لے لی تھی ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کے سودرے لگائے۔دوسرے دن پھر سودرے لگائے اور تیسرے دن بھی سودرے لگائے ۔امام ملکؒ نے اسی کو لیا ہے ۔چنانچہ ان کا مسلک ہے کہ تعزیر کی مقدار’’حد‘‘سے زائد بھی ہوسکتی ہے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جب ایک سائل ایساد یکھا جس کے پاس قدر کفایت سے زائد غلہ موجود تھا چھین کر صدقہ کے اونٹوں کو کھلادیا۔ان کے علاوہ اس نوعیت کے او ربھی بہت سے واقعات ہیں اور صحیح اور معروف فیصلے ہیں ۔اور شرح سیر کبیر ،جلد ۳ ص۷۵ میں ہے ۔اور کوئی مضائقہ نہیں کہ مسلمان کافروں کے ہاتھ غلہ اور کپڑا وغیرہ فروخت کریں ۔مگرجنگی سامان اور گھوڑے اور قیدی فروخت کرنے کی اجازت نہیں ۔ خواہ وہ امن لے کر ان کے پاس آئے ہوں یابغیر امان کے۔کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ مسلمانوں کے مقابلے میںان کو جنگی قوت حاصل ہوگی۔اور مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی چیز حلال نہیں جو مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے او ریہ علت دیگر سامان میں نہیں پائی جاتی ۔پھر یہ حکم جب ہے جبکہ مسلمانوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ نہ کیاہواہو۔لیکن جب اُنہوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ کیا ہواہوتوان کے لئے مناسب نہیں کہ اہل قلعہ کے ہاتھ غلہ یا پانی یا کوئی ایسی چیز فروخت کریں جو ان کے قلعہ بندرہنے میں ممد ومعاون ثابت ہو۔کیونکہ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ اسی لئے تو کیاہے کہ ان کارسد اور پانی ختم ہوجائے ۔او روہ اپنے کو مسلمانوں کے سپرد کردیں او راﷲ تعالیٰ کے حکم پر باہر نکل آئیں ۔پس ان کے ہاتھ غلہ و غیرہ بیچناان کے قلعہ بندر ہنے میں تقویت کا موجب ہوگا۔بخلاف گزشتہ بالاصورت کے کیونکہ اہل حرب اپنے ملک میں ایسی چیزیں حاصل کرسکتے ہیں جن کے ذریعہ وہاں قیام پذیررہ سکیں ۔انہیں مسلمانوں سے خریدنے کی ضرورت نہیں لیکن جو کافرکہ قلعہ بند ہوں او رمسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہووہ مسلمانوں کے کسی فرد سے ضروریات زندگی نہیں خرید سکتے ۔لہٰذا کسی بھی مسلمان کو حلال نہیں کہ ان کے ہاتھ کسی قسم کی کوئی چیز فروخت کرے۔جو شخص ایسی حرکت کرے او رامام کو اس کا علم ہو جائے تو امام اسے تادیب او رسرزنش کرے ۔کیونکہ اس نے غیر حلال فعل کا ارتکاب کیاہے ۔
مذکورہ بالا نصوص اور فقہاء اسلام کی تصریحات سے حسب ذیل اصول ونتائج منقع ہوکر سامنے آجاتے ہیں
1 …… کفار محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اورحرام ہیں جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ اورظالم اور مستحق عذاب الیم ہے ۔
2 …… جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نشست وبرخاست وغیرہ بھی حرام ہے ۔
3 …… جو کافر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں ۔ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے ۔
4 …… مرتد کو سخت سے سخت سزاد یناضروری ہے ۔اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں ۔یہاں تک کہ اگرپیاس سے جان بلب ہو کرتڑپ رہا ہو تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے ۔
5 ……جو کافر مرتد اور باغی مسلمانوںکے خلاف ریشہ دواینوں میں مصروف ہوں ۔ان سے خرید و فروخت اور لین دین ناجائزہے ۔جبکہ اس سے ان کوتقویت حاصل ہوتی ہو۔بلکہ ان کی اقتصادی ناکہ بندی کرکے ان کی جارحانہ قوت کو مفلوج کردینا واجب ہے ۔
6 ……مفسدوں سے اقتصادی مقاطعہ کرنا ظلم نہیں۔بلکہ شریعت اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔
7 …… اقتصادی او رمعاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدوں ،موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں ۔قتل کرنا،شہربدر کرنا،ان کے گھر وں کو ویران کرنا،ان پر ہجوم کرنا وغیرہ ۔
8 ……اگر محارب کا فروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زدمیں آجائیں تو اس کی پروانہیں کی جائے گی۔ہاںاصالتہً عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اُٹھانا جائز نہیں ۔
9 …… ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کرے تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار کے اندر ہوں ۔مگر انہیں کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیںجس سے ملکی امن میں خلل وفساد کا اندیشہ ہو۔
10 …… مکمل مقاطعہ صرف کافروں اور مفسدوں سے ہی جائز نہیں بلکہ کسی سنگین نوعیت کے معاملہ میں ایک مسلمان کو بھی یہ سزادی جاسکتی ہے ۔
11 …… زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر اندرونی طور پر خبیث عقائدرکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاںکرتاہو۔اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدترہے کہ کافر اور مرتد کی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے۔مگر بقول شامی زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ،نہ اس کی توبہ قابل التفات ہے ۔ الا یہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برات کا اعلان کرے ۔
ان اصول کی روشنی میں زیر بحث فردیا جماعت کی حیثیت او ران سے اقتصادی ومعاشی اور معاشرتی وسیاسی مقاطعہ یا مکمل سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔واﷲتعالی اعلم!
کتبہ : ولی حسن ٹونکی غفراﷲ لہٗ
(سابق مفتی اعظم پاکستان)
دارالافتاء مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی
Recent Comments