Search By Category
کادیانی جماعت کادیانی لیڈر کی نظر میں
قادیانیوں کا لیڈر موصلح موعود اپنی جماعت کو کن لفظوں میں یاد کرتا ہے آئیے دیکھتے ہیں
خصی جماعت
”حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے: ”سچا مومن خصی ہو جاتا ہے۔” پس حکومت کے افسروں کو، پولیس اور سول کے حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں، ہم بالکل پرُامن ہیں، کیونکہ ہم سچے مومن ہیں اور مومن خصی ہو جاتا ہے۔”
(تقریر مرزا محمود سابق خلیفۂ قادیان، ”الفضل” قادیان جلد 22، نمبر 87، صفحہ 5، مورخہ 20 جنوری 1935ئ)
سُوروں کی جماعت
(1) ”مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہوا کہ ”جامعہ احمدیہ” میں جو طلبا تعلیم پاتے ہیں، انھیں کنوئوں کے مینڈکوں کی طرح رکھا گیا ہے۔ ان میں کوئی وسعت خیال نہ تھی۔ ان میں کوئی شاندار امنگیں نہ تھیں اور ان میں کوئی روشن دماغی نہ تھی۔ میں نے کرید کرید کر ان کے دماغ میں داخل ہو جانا چاہا۔ مگر مجھے چاروں طرف سے ان کے دماغ کا راستہ بند نظر آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ سوائے اس کے کہ انھیں کہا جاتا ہے۔ وفاتِ مسیح کی یہ آیتیں رٹ لو یا نبوت کے مسئلہ کی یہ دلیلیں یاد کر لو، انھیں اور کوئی بات نہیں سکھلائی جاتی…… ۔۔۔اور جب بھی میں نے ان سے امنگ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے، اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے، تو یہ جواب دیا کہ: ”جس طرح بھی ہوگا تبلیغ کریں گے۔” یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے۔ الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کہنے والے میں عقل نہیں اور نہ وسعت خیال ہے۔ ”جس طرح ہوگا” تو سُور کیا کرتا ہے۔ اگر سُور کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جاتا کہ تُو کس طرح حملہ کرے گا تو وہ یہی کہتا کہ: ”جس طرح ہوگا کروں گا۔ پس سور کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے۔ آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو نیزہ پر حملہ کر دے گا۔ بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا۔ پس یہ تو سوروں والا حملہ ہے کہ سیدھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہیں کیا۔” (تقریر مرزا محمود خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار ”الفضل” جلد 22 نمبر 89 صفحہ 8 مورخہ 24 جنوری 1935ئ)
کیا خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے، اپنے سادہ لوح مریدوں کو! ویسے خلیفہ صاحب اگر غور کرتے تو اسی نتیجے پر پہنچتے کہ اگر ان کے فدائیوں میں عقل و شعور نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ قادیانیت سے وابستہ ہی کیوں رہتے ویسے بھی جس گائوں میں بے وقوف نہیں ہوتے، اس کے ٹھگ بھوکے مرجاتے ہیں جناب!
جماعت میں بہت کمی ہے
(2) ”بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہوگیا۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے۔ اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔” (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 254 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)
بے حیا اور بزدل جماعت
(3) ”کیا تمھیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اس سے حضرت مسیح (یعنی مرزا قادیانی) کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو۔ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہیے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والوں کو مٹا ڈالو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بزدلی اور دُوں ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔”
(تقریر مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 25 نمبر 129، صفحہ 6 مورخہ 5 جون 1937ئ)
جہنم کی آگ کی حامل جماعت
(4) ”رسول کریمۖ نے فرمایا ہے کہ جہنم کی آگ میں سے اگر ایک رائی کے برابر آگ بھی ساری دنیا پر ڈالی جائے تو دنیا جل کر راکھ ہو جائے۔ میری کوشش یہ ہے کہ میں وہ جہنم کی آگ تمھارے اندر پیدا کروں جو پہاڑوں کے برابر ہو۔ اگر جہنم کی رائی بھر آگ ساری دنیا کو جلانے کے لیے کافی ہے تو جو آگ میں تمھارے دلوں میں پیدا کرنا چاہتا ہوں، اگر پیدا ہو جائے تو ایک دنیا نہیں، ہزاروں دنیائوں کو تم جلانے کے قابل ہو جائو گے ۔”
(تقریر مرزا محمود مندرجہ اخبار ”الفضل” قادیان مورخہ 12 دسمبر 1935ء جلد 23 نمبر 139 صفحہ 9)
بددیانت جماعت
(5) ”جیسا کہ سب کو معلوم ہے، یہاں (یعنی قادیان میں) ایک سٹور قائم کیا گیا تھا۔ جماعت کے کچھ افراد نے اس میں روپیہ دیا تھا…… میرے نام ایک خط آیا ہے…… یہ بات کہ یہ کسی احمدی کہلانے والے کا ہے، اس سے معلوم ہوتی ہے کہ میرا نام خلیفتہ المسیح لکھا ہے…… وہ یہ ہے کہ یہ قادیانیوں کی دیانت کا حال ہے، جو دنیا میں بڑے بڑے دینداری کے دعویدار ہیں۔ اس کے بعد اس نے پہلے میری سٹور کے متعلق سفارش نقل کی ہے کہ ”جہاں تک میرا علم ہے، سٹور کے کارکن دیانت دار ہیں۔” اس کو نقل کر کے (خط میں) کہا ہے کہ یہ ایک پھندا تھا، جب روپیہ لوگوں نے دیا تو پھر روپیہ کھانا شروع کر دیا اور کھاتے کھاتے یہاں تک پہنچایا کہ (اس دور کے) ساٹھ ہزار میں سے صرف اٹھارہ ہزار باقی رہ گیا۔” (تقریر مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 10 نمبر 41، 42 صفحہ 6 مورخہ 23 تا 27 نومبر 1942ئ)
گالیاں کھلوانے والی جماعت
(6) ”گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود (یعنی مرزا قادیانی) کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو، وہ تمہاری مدد کرے، گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے؟”(مرزا محمود کا خطبہ ،اخبار الفضل قادیان جلد25، نمبر 129، صفحہ 6 مورخہ 5 جون 1937ئ)
احمق جماعت
(7) ”میں نے دیکھا ہے، قادیان کی لوکل جماعت کے پریذیڈنٹ (صدر یا امیر) چونکہ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ان کے متعلق یہ بات خوب نظر آتی ہے، ایک وقت جب ایک شخص پریذیڈنٹ ہوتا ہے تو دوسرا آ کر کہتا ہے: دیکھیے کیا اندھیر نگری ہے، کوئی سننے والا ہی نہیں، ہر کوئی اپنی حکومت جتاتا ہے۔ لیکن جب دوسرے وقت وہی شخص خود پریذیڈنٹ ہو جاتا ہے تو شکایت کرتا ہے: پبلک (یعنی قادیانی) بالکل جاہل اور احمق ہے، وہ تو کام کرنے ہی نہیں دیتی، گویا جب خود پریذیڈنٹ ہوتا ہے تو (قادیانی) پبلک کو احمق قرار دیتا ہے اور جب پبلک میں شامل ہو جاتا ہے تو (اپنے) پریذیڈنٹ کو احمق کہنے لگ جاتا ہے۔” (گویا پوری قادیانی جماعت ہی احمق ہے۔مرتب)
(خطبہ جمعہ از مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 20، نمبر 143، صفحہ 7 مورخہ یکم جون 1933ئ)
انگاروں والی جماعت
(8) ”میں چاہتا ہوں کہ جو جو مظالم تم پر کیے جاتے ہیں، وہ تمھارے دلوں میں انگارے بن بن کر جمع ہوتے چلے جائیں لیکن ان کا دھواں باہر نہ نکلے، یہاں تک کہ تم ان انگاروں سے جل کر اندر ہی اندر راکھ ہو کر بھسم ہو جائو۔” (خطبہ جمعہ از مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 23، نمبر 139، صفحہ 9 مورخہ 12 دسمبر 1935ئ)
جھگڑالو جماعت
(9) ”مجھے ان (قادیانی) لوگوں کو ڈھیل دیتے دیتے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے اور اب بھی میں انھیں کچھ نہیں کہتا مگر میں انھیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سوچیں ان کا اپنا طریق عمل کیا ہے۔ ان کی اپنی تو یہ حالت ہے کہ وہ اس بات پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں کہ ہمیں فلاں عہدہ کیوں نہیں دیا گیا؟ فلاں کیوں دیا گیا؟ فلاں کے ماتحت ہم رہنا نہیں چاہتے۔ کبھی تنخواہ پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بتلاتی ہیں کہ ان کے دماغ کی کل بگڑی ہوئی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود (یعنی مرزا قادیانی) کو اگر برا بھلا کہا جائے تو انھیں غصہ نہیں آتا لیکن اپنی کوئی بات ہو تو جھگڑے بغیر رہ نہیں سکتے۔” (اخبار الفضل قادیان جلد 22، نمبر 94، صفحہ 9 مورخہ 5 فروری 1935ئ)
کسی ماہر نفسیات کے لیے یہ بہت بڑی Assignment ہے کہ وہ گہرائی میں جاکر مفصل علمی تجزیہ کرے، آخر مرزا قادیانی کے لیے قادیانیوں کے دِلوں میں غیرت کا اس قدر فقدان کیوں ہے؟ مرزا قادیانی کو نبی کہتے ہوئے ان کا منہ سوکھتا ہے مگر جب موقع آتا ہے، اپنے اس ”مسیح موعود” کی عزت کے لیے تو ان کی حمیت نہیں جاگتی۔
جماعت کی حرکتیں امام کے ساتھ
(10) ”بعض دفعہ (میری) بغل کے نیچے سے کوئی ہاتھ نمودار ہو رہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ میں آگے ہوتا ہوں اور کوئی پیچھے سے میرے ہاتھ کو مروڑ رہا ہوتا ہے اور میں قیاس سے سمجھتا ہوں کہ کوئی مصافحہ کرنا چاہتا ہے، پھر میں نے کئی بار دیکھا ہے بعض لوگ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہیں…… پھر میری یہ حالت ہے کہ اگر میرے بدن پر ہاتھ رکھ دیا جائے تو میری حالت ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے…… وہ تو برکت حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں مگر مجھے ایسی گدگدی اور کھجلی ہوتی ہے کہ طبیعت میں سخت انقباض پیدا ہوتا ہے پھر کئی لوگ ہیں کہ وہ دبانے لگتے ہیں مگر دو چار بار دبا کر پھر کمر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ یہ تو برابر کے دوست کے لیے بھی معیوب بات ہے، چہ جائیکہ امام جماعت کے لیے ہو۔” (خطبہ جمعہ از مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 21، نمبر 149، صفحہ 5 تا 7 مورخہ 14 جون 1934ئ)
نفس پرور جماعت
(11) ”پس جو لوگ دنیا میں نفسا نفسی میں ہی پڑے رہتے ہیں، قیامت کے روز ان سے بھی نفسی نفسی کا معاملہ ہوگا۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس کی تازہ مثال ہم میں موجود ہے۔ ایک (قادیانی) شخص کی لڑکی فوت ہو گئی۔ وہ اکیلا اس کا جنازہ لے کر گیا اور راستہ میں دو ایک آدمی اور مل گئے۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ میں بوجہ بیماری کے اس جنازے کے ساتھ نہ جا سکا۔” (خطبہ جمعہ از مرزا محمود مندرجہ اخبار الفضل قادیان جلد 8، نمبر 10، صفحہ 8 مورخہ 12 اگست 1920ئ)
Recent Comments