Search By Category
سرظفر اللہ کی زندگی پر اجمالی نظر
اللہ تعالیٰ نے سرظفر اللہ کو علم و عقل و دانش اور اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا،طویل مہلت قریباً ایک صدی کی دی۔ (93 سال) کہ وہ قادیانی تحریک کا اندر اور باہر اچھی طرح چھان پھٹک کر پرکھ لے اور تائب ہو کر دین اسلام کی طرف پلٹ آئے۔ مگر اس نے بہمہ صلاحیت و دانش اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا اور طرح طرح کے عذاب جو مختلف ناکامیوں ،نامرادیوں، عزیزوں کی بیماریوں اور قادیانیت کے زبردست زوال اور دیگر مصائب جھیل کر بالآخر ایک حسرت ناک اور المناک موت مرا۔ اس عذاب کی ایک جھلک درج ذیل ہے:
-1 پہلی شادی کے موقع پر والد سے جھگڑا۔
-2 خلاف مرضی والد سے دب کر شادی پر مجبور ہونا پڑا۔
-3 پہلی بیوی سے نہ بنی۔ اس کی ساری عمر خبر نہ لی۔ کبھی میل جول نہ رکھا۔ اس بے گناہ کی بددعائیں لیں۔
-4 والد کے مرتے ہی اپنی مرضی کی ماڈرن دوشیزہ سے شادی کی مگر اس نے ظفر اللہ کا ناک میں دم کر دیا کہ بیوی کے پاس رہنا مشکل ہو گیا۔ اس بیوی نے بے وفائی کر کے ایک دوسرے شخص شاہنواز سے شادی رچا لی۔
-5 بہت چلے کاٹے مگر نرینہ اولاد نہ ہوئی۔ بیٹے کی تمنا ساری عمر تڑپاتی رہی۔
-6 بیویوں سے ان بن رہنے سے مرزا محمود کی فیملی میں دلچسپی لینے لگااور مرزا فیملی نے ہر طرح کا لاسہ ڈال کر ساری دولت اور جائداد بٹور لی اور زندگی بھر اس دولت اور صلاحیت کو جس طرح چاہا، استعمال کیا۔ غلام اور ذلیل بنا کے رکھا۔ قلیوں تک کا کام لیا۔
-7 ساری عمر نہ اچھا کھانا نہ اچھا پہننا نصیب ہوا۔ دولت اور جائداد میں سے پسماندگان کو کچھ نصیب نہ ہوا۔ یعنی ایک دیمک زدہ بے ثمر درخت اہل خانہ اور پسماندگان کے لیے ثابت ہوا۔
-8 اوائل جوانی میں اپنے نوجوان بھائی شکر اللہ کی وفات کا صدمہ دیکھا۔
-9 1959ء میں ظفر اللہ کا سب سے چہیتا بھائی عبداللہ خان بلڈ کینسر سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا۔
-10 ظفر اللہ کا ہمدم ہمراز اور پیر و مرشد مرزا محمود پر سن 53ء میں قاتلانہ حملہ ہوا جس کو لے کر یورپ میں جگہ جگہ علاج کے لیے مارا مارا پھرنا پڑا مگر معمولی افاقہ ہونے کے بعد فالج کا حملہ ہوا اور نوسال تک مفلوج ہو کے پھٹے پر پڑا رہنے کے بعد عبرتناک موت مرا۔ (یاد رہے مرزا غلام احمد نے فالج کو جھوٹوں اور لعنتیوں کی بیماری لکھا ہے)
-11 باوجود مرزا محمود کے دست راست ہونے کے گدی نشینی کے وقت ظفر اللہ کو کسی نے نہ پوچھا اور مرزا محمود وصیت کر گیا کہ آئندہ خلیفہ صرف اس کی اپنی اولاد میں سے ہوگا۔
-12 چھوٹا بھائی اسد اللہ خاں 15 سال تک بعارضہ فالج معذور پڑا رہنے کے بعد ظفراللہ کی مرگ کے قریبی دنوں میں مرا۔
-13 بڑھاپے میں تیسری شادی فلسطینی دوشیزہ سے کی۔ اس کے منگیتر اور ساری دنیا سے جگ ہنسائی کروائی۔ قادیانی پیشوائوں کی دعائیں بیٹے کے لیے قبول نہ ہو سکیں۔
-14 قادیانیت کا عبرت ناک زوال دیکھا۔ 1914ء میں جماعت کے دو ٹکڑے ہوئے۔ علمائے اسلام کی طرف سے کفر کے فتوے، بالآخر اقلیت قرار پائے۔ مرنے کے وقت صورت حال یہ تھی کہ پوری دنیائے اسلام کا اجماع ہو چکا تھا کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔ کلمہ، نماز، مساجد اور شعائر اسلام کا استعمال ممنوع ہو چکا تھا۔ پیر و مرشد مرزا طاہر مفرور ہو چکا تھا۔
-15 اکلوتی بیٹی امت الحئی کی شادی ناکام ہو گئی۔ اس کی پہلی شادی ڈاکٹر اعجاز احمد قادیانی سے ہوئی تھی مگر شادی کے بعد ہی ان بن رہنے لگی۔
معروف سکالر اور سابق قادیانی جناب منیر الدین احمد اپنی آپ بیتی ’’ڈھلتے سائے‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’چوہدری ظفر اللہ خان کے بھائی چوہدری عبداللہ خان کے بیٹے حمید نصراللہ کا رشتہ ’’خاندانِ نبوت‘‘ کی ایک لڑکی سے طے پایا تھا۔ نکاح خود مرزا بشیرالدین محمود احمد نے پڑھایا تھا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ جماعت کے دو سرکردہ خاندان اس رشتے کے سبب زیادہ قریب آجائیں گے۔ مگر رخصتی والے روز، جب مرزا فیملی کے سب لوگ ربوے میں جمع تھے، برات کراچی سے نہیں آئی تھی۔ حمید نصراللہ خفیہ طور پر اپنی کزن امتہ الحئی سے محبت کرتا تھا جو چوہدری ظفر اللہ خان کی بیٹی تھی۔ امتہ الحئی اس زمانے میں ایک دوسرے شخص (ڈاکٹر اعجاز احمد) کے ساتھ بیاہی ہوئی تھی۔ بعد میں اس نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف خاوند سے طلاق لے کر حمید نصراللہ کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ اس کا پہلے خاوند سے، جو ہجرت کرکے آسٹریلیا چلا گیا تھا، ایک بیٹا تھا جو لاہور میں ماں کے پاس رہتا تھا۔ چند برس ادھر اس کو کسی نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔ حمیدنصراللہ نے ’’خاندانِ نبوت‘‘ کی لڑکی کو جس طرح ٹھکرایا تھا، اس کی سزا سے وہ صاف بچ گیا تھا۔ اگر اس کی جگہ پر کوئی دوسرا ہوتا تو اس کو اور اس کے خاندان کو جماعتِ احمدیہ سے خارج کرنے کے علاوہ اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا۔ حمیدنصراللہ برسوں سے جماعت احمدیہ لاہور کا امیر ہے۔‘‘
-16 عبرت ناک موت: جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے ظفر اللہ کی دوسری بیوی نے 1960ء میں علیحدگی حاصل کر کے شاہنواز قادیانی سے شادی کر لی تھی۔ مگر یہ شادی چند سال تک ہی نبھی اور اس عورت نے شاہنواز سے بھی طلاق حاصل کر لی اور اپنی بیٹی امت الحئی (جو ظفراللہ سے تھی) کے ساتھ رہنے لگ گئی۔ سرظفر اللہ اپنی بیٹی اور سابقہ بیوی کے گھر جانا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اس لیے پاکستان آتا تو ربوہ میں مرزا فیملی کے مہمان بنتا اور مرزا محمود اور اس کے گدی نشینوں کے ہاں ہی رہائش رکھتا لیکن نومبر 83ء میں لندن میں صحت بہت خراب رہنے لگی اور آخری وقت نظر آنے لگا تو قادیانی رائل فیملی کی شدید سرد مہری کی وجہ سے مجبوراً اپنی بیٹی اور سابقہ بیوی کے پاس وطن واپس آنے کا ارادہ کیا۔ لندن میں اپنے دوستوں سے اپنا عندیہ ظاہر کیا۔ دوست بھی حیران ہوئے کیونکہ سب سمجھتے تھے کہ ظفر اللہ کا گھر اور ٹھکانہ تو لندن ہی ہے۔ اس لیے احباب نے کہا اب آخر وقت میں جا کر کیا کرو گے۔ یہیں رہ جائو۔
چنانچہ جب ایک خاص محب منصور بی ٹی نے پوچھا کہ چودھری صاحب یہ کیا سن رہا ہوں تو سرظفر اللہ نے جواب دیا “Mansoor I do not like to go in a box” میں تابوت میں بند ہو کر واپس جانا نہیں چاہتا۔ صحت اس قدر خراب ہو چکی تھی کہWheel Chair پہیوں والی کرسی سے جہاز میں لے جایا گیا اور لندن سے لاہور پہنچ کر اپنی سابقہ بیوی اور بیٹی کے ہاں قیام پذیر ہوا اور اپنی ساری عمر کی بے رخی پر بہت رویا دھویا۔ اپنی بیٹی اور اس کے بچوں سے التجا کی کہ اب ہر وقت اور کھانے کی میز پر سب ان کے ساتھ اکٹھے کھانا کھایا کریں اور اپنی سابقہ بیوی کی طرف دیکھ کرکہا ’’اگر آپ بھی اس پروگرام میں شامل ہو جائیں تو یہ مجھ پر عنایت ہوگی۔‘‘ (ص 47 ظفر اللہ نمبر) لیکن سابقہ بیوی نے اس کے کسی پروگرام میں شرکت نہ کی بلکہ اس سے کلام تک نہ کیا اور یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ لندن سے نومبر 83ء میں سخت جان کنی کی حالت میں لاہور آیا کہ بچوں کے سامنے آرام سے جان دے گا مگر جان بھی آسانی سے نہ نکلی۔ دو سال سخت تکلیف میں مبتلا رہا۔ آخری دو ماہ تقریباً مسلسل بے ہوشی کی حالت میں گزارے اور کبھی ہوش میں آتا تو سخت اضطراب اور گھبراہٹ میں ہوتا۔ ایک دم چلاّتا اور کبھی شدید غصے میں برسنے لگ جاتا۔ کبھی شدت بیماری سے طبیعت بے چین ہو جاتی اور راتوں کو نیند نہ آتی۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اس جہاں سے سب کو جلد یا بدیر جانا ہے مگر بعض لوگوں کی موت بھی تازیانہ عبرت ہوتی ہے، ایسی ہی عبرتناک موت سے آنجہانی سرظفراللہ خاں کو دوچار ہونا پڑا۔ اور بستر مرگ پر اس نے جس طرح تڑپ تڑپ کر وقت گزارا، اسے سپردِ قلم کرنا مشکل ہے۔ آخرت کی سزا یقینا سخت ہے۔ لیکن دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسے جو سزا دی ہے، وہ جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی ذریت اور اس کے پیروکاروں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ 1983ء میں وہ ڈسکہ میں شدید بیمار ہوا تو ربوہ کے امور عامہ کے محکمے نے اس کی قبر بھی کھود دی تھی کیونکہ اس کی عبرتناک بیماری کو دیکھ کر قادیانیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ پل دو پل کا مہمان ہے۔ لیکن یہ خدائی عذاب طویل ہوتا چلا گیا۔
آخری دنوں کی کیفیت ان کی بیٹی امت الحئی یوں بیان کرتی ہے ’’ایک مہینہ اور 10 دن کی اس آخری بیماری میں پہلے پانچ دن تو آپ مکمل بے ہوش رہے۔ ان کی گرتی ہوئی صحت بلکہ ٹمٹماتی ہوئی زندگی نے ان کے کمرے کا جو ماحول بنا رکھا تھا، اس کو برداشت کرنا میرے لیے ناممکن ہو رہا تھا۔(گویا بیٹی بھی اس انتظار میں تھی کہ باپ مرے تو سکھ کا سانس لیں)… وصال سے کوئی سات آٹھ گھنٹے قبل ہر روز انھیں کئی کئی دفعہ مکمل ہوش آ جاتا تھا… آنکھوں سے آنسوئوں کی مسلسل بارش جاری ہوتی تھی… مرض الموت کے آخری ہفتہ میں آپ بہت سنجیدہ ہو گئے اور چہرے پر ایسا اثر رہنے لگ گیا کہ بیہوش بھی ہوتے تھے تو کچھ کہنے سے پہلے یا کوئی دوا دینے سے پہلے ہم لوگوں کو گھبراہٹ ہوتی تھی کہ کہیں ہوش آ گیا تو طبیعت پر ناگوار نہ گزرے (یعنی ایسی دہشت ناک حالت تھی کہ لواحقین بے ہوشی میں بھی قریب پھٹکتے ڈرتے تھے) اس عرصہ میں جب بھی ہوش میں آتے تو صرف حضور (مرزا طاہر) کے بارے میں پوچھا کرتے۔ (پیر و مرشد کی دربدری جانکنی میں کتنی تکلیف دیتی ہوگی العیاذ باللہ) میری طرف دیکھتے رہتے۔ میں انھیں بوسہ دیتی مگر وہ کچھ نہ کہتے۔ عائشہ کی عادت بھی میری طرح تھی۔ ایک دن میں نے عرض کی کہ میں ترس گئی ہوں، خدا کے لیے کچھ تو کہیے تو فرمایا “Darling the century is over” (ص 46، ظفراللہ نمبر)
جولائی 1985ء میں وہ شدید علیل ہوگیا۔ اس کی بھوک کی خواہش زائل ہو چکی تھی۔ میڈیکل رپورٹوں کے مطابق اس کے معدہ میں رسولی تھی جسے آپریشن کے ذریعے نکالنا جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا۔ اگست 1985ء کے آخری عشرہ میں اس پر فالج کا بدترین حملہ ہوا۔ کوئی دوا اور دعا کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اس کا جسم سوکھ گیا۔ رنگ سیاہ پڑ گیا اور آنکھیں باہر نکل آئیں۔ وحشت کے مارے کوئی اس کے قریب نہ جاتا۔ اسی عبرتناک اور وحشت انگیز کیفیت میں یکم ستمبر 1985ء کو پرلوک سدھار گئے۔4ستمبر کو حکومتی سرپرستی میں اس کی ارتھی لاہور سے ربوہ پہنچی اور وہ دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا محمود کے ساتھ دفن ہوا۔کچھ ہی عرصہ قبلمرزا بشیرالدین محمود کی قبر سے یہ کتبہ اتارا گیا ہے جس پر تحریر تھا کہ جب حالات سازگار ہو جائیں تو میری میت کو یہاں سے نکال کر قادیان میں دفن کیا جائے۔ ظفر اللہ خاں کو بھی مرزا بشیرالدین کے پہلو میں امانتاً دفن کیا گیا ہے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیانی کس قدر محب وطن پاکستانی ہیں؟
مجموعی طور پر ظفر اللہ خاں کی زندگی پر اجمالی نظر ڈالیے تو وہ ناکامی، نحوست اور حرماں نصیبی کی تصویر ہے۔ وہ اپنے والد اور بیوی بچوں یعنی اہل خانہ کے لیے منحوس وجود ثابت ہوا بلکہ وہ اپنی ذات کے لیے بھی منحوس ثابت ہواکہ اتنی کثیر مال و دولت میسر ہونے کے باوجود اسے اچھا کھانا، پہننا نصیب نہ ہوا۔ ملک و ملت کے لیے بھی وہ منحوس وجود ثابت ہوا اور جس جگہ بھی اس نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہاں ناکامی اور نامرادی ہاتھ آئی۔ مثلاً پنجاب کی تقسیم کے وقت مسلم لیگ نے اپنا کیس ریڈ کلف کمیشن کے سامنے اس سے پیش کرایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جن علاقوں کی پوری امید تھی، وہ بھی ہاتھ سے نکل گئے اور پنجاب کے کئی مسلم اکثریت کے علاقے بھی ہاتھ سے نکل گئے، نتیجتاً کشمیر بھی پاکستان کے ہاتھ سے قریباً سارا ہی جاتا رہا۔ اسی طرح اقوام متحدہ (U.N.O) میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کے لیے حکومت پاکستان نے اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہا، ظفر اللہ نے بھی لمبی تقریروں کے ریکارڈ توڑ دیے مگر انجام وہی ناکامی و نامرادی۔ بلکہ اس کے بعد کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی اور کشمیر میں مقامی جنگ سے جو تھوڑے بہت علاقے آزاد ہو کر پاکستان کو مل رہے تھے، وہ بھی وہیں رک گئے۔ اور اے قادیانیو! تمھارے لیے بھی ظفر اللہ کا وجود منحوس ثابت ہوا کیونکہ سرظفر اللہ کی وجہ سے عامتہ المسلمین نے اس کو وزارت خارجہ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اسی کے قائداعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کے باعث مسلمانوں میں قادیانیوں سے شدید نفرت کا آغاز ہوا اور بالآخر 1953ء میں عظیم تحریک قادیانیت کے خلاف چلی۔ وہ اس اعتبار سے بھی منحوس وجود تھا کہ جس تحریک کے لیے اس نے اپنی ساری صلاحیتیں، مال و دولت، عزت سب کچھ وقف کر دیا تھا، مرنے سے پہلے اس کی اینٹ سے اینٹ بجتے دیکھ لی۔ غیر مسلم اقلیت قرار پانے اور مساجد، نماز اور شعائر اسلام پر پابندی کے علاوہ مرنے سے پہلے اپنے پیر و مرشد کا ملک سے چوروں کی طرح فرار ہونا دیکھنا پڑا۔ بالآخر قادیانیو ںسے بے لوث اور پرخلوص بات انہی کے فائدے اور بہتری کے لیے ہے کہ وہ بصیرت سے کام لیں۔
قادیانی ظفراللہ خاں کو اپنے مذہب کے بانی کا صحابی قرار دیتے ہیں اور پھراسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہم پلہ یا ان سے برتر قرار دیتے ہیں۔ آپ نے مندرجہ بالا احوال پڑھے، آپ پر واضح ہے کہ یہ سب مشہور واقعات ظفر اللہ صاحب کے دوستوں، عزیزوں کے بیان کردہ ہی ہیں۔کوئی بھی ذی فہم شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ ایسی زندگی ایک ناکام، نامراد، منحوس اور حرماں نصیب شخص کی ہو سکتی ہے ۔سو قادیانیوں کو اپنے باطل عقائد سے فوراً توبہ کر کے دامانِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں واپس لوٹ آنا چاہیے اور اپنی عاقبت اور دنیا کو تباہی سے بچا لینا چاہیے۔
Recent Comments