Language:

تاریخ احمدیت کے گمشدہ اوراق کا ماسٹر پرنٹ حصہ اول

شفیق مرزا  لاہور

 مرزا غلام احمد کی جنسی زندگی سخت ناآسودہ تھی۔ بھلا ایک ایسا شخص جو ذیابیطس، دورانِ سر، کثرت پیشاب، مراق اور سینکڑوں دوسرے امراض کے گھیرے میں آیا ہوا ہو، اسے بیمار تو نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ وہ خود اتنی بڑی بیماری تھا جو تمام امراض کا ناطقہ بند کیے ہوئے تھا، ایسا آدمی اگر یہ اقرار نہ بھی کرے کہ اسے باربار یہ گمان گزرتا تھا کہ وہ نامرد ہوگیا ہے تو بھی علم طب کی تھوڑی سی شدھ بدھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ جان سکتا ہے کہ ذیابیطس کا سب سے پہلا حملہ ہی انسان کی جنسی قوت پر ہوتا ہے اور وہ اسے ناکارہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور یہاں تو امراض کا ایک پورا لشکر بھی ساتھ ہے جس نے لامحالہ حشر میں حشر بپا کرکے رکھ دیا ہوگا۔ ان حالات میں متنبی قادیان کی پہلی بیوی بیچاری حرمت بی بی کے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کے گھر میں جاکر بیٹھ جاتی لیکن اس سے بھی بڑا ستم یہ ہوا کہ مولوی نورالدین کے زد جام عشق ٹائپ نسخوں نے مرزا غلام احمد کی مردہ رگوں میں بھی خون کی لہر دوڑا دی اور اس نے دہلی کے ایک مفلوک الحال خاندان کے میر ناصر نواب کی 16سالہ ناکتخدا بیٹی اللہ رکھی کے سر پر ’’نصرت جہاں بیگم‘‘ کا تاج رکھ کر یہ نعرہ لگا دیا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ ’’نئی بیوی کی جو بھی ضروریات ہوں گی وہ میں پوری کروں گا اور تمہیں جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ میں دوں گا‘‘۔

لیکن سینکڑوں امراض کے نرغے میں آیا ہوا ایک 45سالہ بڈھا قانون قدرت کو تو نہیں توڑ سکتا۔ ایک طرف چڑھتی دھوپ تھی اور دوسری طرف ڈھلتی چھائوں۔ ان حالات میں دھوپ کو اپنی تمازت کم کرنے کے لیے دوسرے راستے اختیار کرنے ہی تھے کہ یہ ایک فطری عمل تھا اور فطرت کے راستوں کے آگے جب بندھ باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ سیلاب بلا ہر رکاوٹ کو توڑ کر نکل جاتا ہے پھر یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور اتنا کچھ ہوا کہ اس کے اپنے بیٹے نے اپنی والدہ سے سیرت المہدی جلد اوّل کے پہلے ایڈیشن میں ایسی ایسی روایات بیان کیں کہ نہ کوئی ماں اپنے بیٹے سے مجامعت کی ایسی تفصیلات بیان کرسکتی ہے نہ کسی بیٹے میں یہ ہمت ہے کہ وہ انہیں سن ہی لے چہ جائیکہ وہ انہیں ضبط تحریر میں بھی لے آئے (یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اگرچہ سیرۃ المہدی کی جلد اول کے دستیاب ایڈیشنوں میں بھی اس نوع کا مواد خاصی مقدار میں موجود ہے لیکن اس کا اصلی ایڈیشن اول مرزا محمود احمد نے واپس لے لیا تھا) لیکن یہ کار آمد ریفرنس تو آپ اب بھی پڑھ سکتے ہیں کہ حضور نے پہلی بیگم سے مباشرت عرصہ ہوا ترک کر دی تھی۔ یہ انکشاف خواہ مؤلف سیرۃ المہدی کی والدہ نے کیا ہو یا والد نے، ہر دو صورتوں میں لاجواب ہے کہ مادر گیتی ایسے والدین روز روز پیدا کرتی ہے نہ ایسے بیٹے ہی روز روز جنم لیتے ہیں جو والدین کی خلوتوں کو بے نقاب کرنے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہ کریں۔

جن لوگوں نے History of Prostitution, My Secret Garden اور Secret Lives of Great People اور جنس پر اس نوع کی دوسری تحقیقی کتب کا مطالعہ کیا ہے انہیں معلوم ہے جب کچھ لوگ مردانہ ضعف کا شکار ہوتے ہیں تو جس رفتار سے یہ کمزوری ان میں در آتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ تیزی سے وہ اپنی مردانگی کے جوہر دکھانے کے لیے پاپڑ بیلنے لگتے ہیں۔ یہی حال مرزا غلام احمد کا تھا کہ ۔۔۔ دوسری نے چندہ خوری سے ملنے والی دولت کے لیے ایک ازکار رفتہ بڈھے کے ہاں رہنا تو قبول کرلیا لیکن اپنی جوان امنگوں کا خون کرنے کی بجائے وہ کچھ کرنے کی راہ اختیار کرلی جس کا تصور بھی لرزہ براندام کر دیتا ہے۔

مگر مرزا غلام احمد کا جوش جنوں اب بھی فرو نہ ہوا اور اس کی نظر اپنی ایک رشتہ دار لڑکی محمدی بیگم پر پڑ گئی اور وہ اس پر کچھ اس انداز سے لٹو ہوا کہ آسمان پر اس سے اپنا نکاح بھی پڑھے جانے کا اعلان کر دیا اور یہاں تک لکھ دیا کہ اگر اس کا نکاح کسی دوسرے سے ہوا تو اس کا شوہر مر جائے گا یا اسے طلاق دے دے گا اور وہ ہر حال میں میرے نکاح میں آئے گی مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا اور مرزا غلام احمد قادیانی وصل کی تمام حسرتیں دل میں لیے صرف محمدی بیگم کے پا جامے سونگھنے ہی پر اکتفا کرتا رہا۔ یوں یہ ساری پیشگوئیاں ایک خبطی کی پیش خبریاں ثابت ہو ئیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے یہ لچھن ہوں، کیا وہ نبوت کے قریب بھی پھٹک سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔

اس ماحول میں پروان چڑھنے والے مرزا غلام احمد کی دوسری بیوی کے بڑے بیٹے مرزا محمود احمد کو صرف 22 سال کی عمر میں مولوی نورالدین کی وفات کے بعد اس کے ماموؤں نے غنڈہ گردی سے ’’خلافت‘‘ کی گدھی پر بٹھایا اور اہلِ نظر جانتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی سربراہی کے لیے یہ عمر کس قدر غیر موزوں ہے۔ اسی پس منظر میں یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہیں ہوگا کہ اس ’’منصب‘‘ پر فائز ہونے سے پہلے مرزا غلام احمد کی زندگی میں ہی میرسراج الحق نعمانی نے مرزا محمود احمد کی جنسی بے اعتدالیوں کی ایک شکایت مرزا غلام احمد کی پگڑی میں ایک چٹ ڈال کر کی تھی جس پر مولوی محمد علی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس کی Findings کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خود کہا ہے کہ جرم تو ثابت ہوگیا تھا مگر ہم نے شبہ کا فائدہ دے کر ملزم کو بری کر دیا لیکن قانونی موشگافیوں کے ذریعے ایک مجرم کو بے گناہ قرار دینے کی یہ پیرپرستانہ کارروائی پھر بھی مولوی محمد علی کو قادیان میں رہنے کے قابل نہ بنا سکی اور مولانا عبدالرحمن مصری، حکیم عبدالعزیز اور حقیقت پسند پارٹی کے چیئرمین ملک عزیز الرحمن کے بقول جب ایک دن مرزا محمود احمد نے مولوی محمد علی کی اہلیہ ہی کے پائوں پر اپنا پائوں رکھ کر انہیں اپنے ڈھب پر لانے کی طرح ڈالی اور ان کی بیٹیوں تک پر نگاہ بد ڈالنا شروع کر دی تو پھر ان کے لیے قادیان سے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا اور اس عجلت میں وہ مرزا غلام احمد کی نام نہاد نبوت بھی وہیں بھول آئے اور لاہور میں آکر ان کی مجددیت‘‘ پروپیگنڈہ شروع کر دیا تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

اب مرزا محمود احمد کے لیے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی روک باقی نہ رہ گئی تھی، اس لیے اس نے پہلے قادیان اور اس کے بعد ربوہ (چناب نگر) میں ایک ایسا آہنی نظام قائم کیا کہ مرزا غلام احمد کی ’’نبوت‘‘ کو نہ ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر ان سے مصاہرت اور مناکحت کے رشتے توڑ دیئے۔ اور ان کے جنازے تک پڑھنے کو حرام قرار دے ڈالا اور جب ان سے مسلمانوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے۔ اس طرح جب مرید اپنے رشتہ داروں اور معاشرے سے پوری طرح کٹ گئے تو پھر اس نے ان کے مال و منال عزت اور اولاد ہر چیز پر ہاتھ صاف کرنے کو پوری طرح مباح سمجھ لیا اور مرید بھی پیر پرستی میں اس حد تک آگے نکلے ہوئے تھے کہ وہ اپنے نام نہاد خلیفے کے خلاف کسی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور پیر قادیانی نے تو پیش بندی کے طور پر اپنے ایک خطبے میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر تم کسی ناگفتہ بہ حالت میں دیکھ بھی لو تو سمجھ لو کہ یہ تمہاری آنکھ کی غلطی ہے۔ اسی طوفانی پروپیگنڈے کی یہ تاثیر تھی کہ ان کے ایک انتہائی قریبی ساتھی مولوی عبدالرحمن مصری کو جب ان کے بیٹے بشیر احمد مصری نے بتایا کہ جس خلیفے کو آپ تقدس مآب اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے ہیں، وہ تو اول درجے کا چھٹا ہوا بدمعاش ہے اور اس سے کوئی محرم یا غیر محرم عورت تو درکنار کوئی خوبرو نوجوان تک محفوظ نہیں تو مریدِ سادہ کو  اپنے بیٹے کے بیان پر بھی یقین نہ آیا اور وہ یہی سمجھتا رہا کہ میرا بیٹا مخالفین کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے لیکن جب بیٹے نے اپنے باپ کو ساتھ لے جا کر روشندان سے تمام منظر اپنی آنکھوں سے دکھا دیا تو تب کہیں جا کر اسے یقین آیا کہ اس شہر طلسمات میں تو وہ کچھ ہوتا ہے جس کا خواب میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا اور جب مرزا محمود کو اپنے جاسوسوں کی معرفت اس ساری کارروائی کی خبر ہوئی تو مصری صاحب بدترین سوشل بائیکاٹ کی زد میں آگئے اور پھر اس کے بعد ایک نہیں سینکڑوں خاندان وقتاً فوقتاً سماجی مقاطعہ کا شکار بنتے رہے۔ اور کئی مراحل تو ایسے بھی آئے کہ ’’الہامات‘‘ کی چادروں میں لپٹی ہوئی ان بستیوں کو چھوڑنے والے لوگوں کا سامان اٹھانے کے لیے بھی کوئی تیار نہ ہوتا تھا۔ اور اگر ان میں کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کا علاج تو کیا، اس کی تیمارداری تک کوئی نہ کرتا۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اگر مسلمان قادیانی امت کا سوشل بائیکاٹ کرنے کا کبھی اعلان کرتے ہیں تو وہ آسمان سر پر اٹھا کر اسے غیر انسانی قرار دیتے ہیں۔ امریکہ و یورپ میں اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ حقوق انسانی کے عالمی فورموں میں چلا چلا کر اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کے ہاں تو یہ روز کا معمول ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں آگے بڑھ کر وہ قتل و غارت تک کی جو وارداتیں کرتے ہیں اس سے تو حسن بن سباح اور اس کے باطنی ساتھیوں کی روحیں بلکہ بدروحیں بھی کپکپا کر رہ جاتی ہیں۔

مرزا محمود احمد نے اپنے قریب ترین رحمی اور غیر رحمی رشتوں کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کی داستان بیان کرنے والے ان کے عزیز، رشتہ دار اور اس کے وہ قریب ترین ساتھی ہیں جو سب کچھ قادیانیت کے لیے قربان کرکے اس کے چرنوں میں گئے تھے۔ مگر پھر جب انہیں اصل حقیقت کا علم ہوا تو پتہ چلا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ اس جنسی بے راہروی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مرزا محمود احمد بدترین فالج کا شکار ہوا اور پندرہ سال تک ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا لیکن اس کی احمق جماعت کا یہ حال تھا کہ وہ الفضل میں لوگوں کی یہ خوابیں شائع کر رہی تھی کہ چاند کو گرہن لگ گیا ہے اور وہ بہت جلد اپنی اصلی حالت میں آجائے گا لیکن عذاب الٰہی کی گرفت میں آیا ہوا کوئی شخص کیسے بچ سکتا ہے اور میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ ربوہ کی ہر عبادت گاہ میں قادیانی صبح کی نماز کے بعد رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد رو رو کر اور چیخ چیخ کر رب اشف امیرالمومنین شفائً عاجلاً کاملاً لایفادڑ سقماً کی دعائیں اس طرح مانگا کرتے تھے کہ ان کی گھگھی بند جاتی تھی لیکن پی آئی اے کی پرواز سے روزانہ جرمنی سے دوائیں منگوانے اور سوئٹزرلینڈ کے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود اس کے مرض نے ایسی خوفناک صورت اختیار کرلی کہ اس کا نصف سے زیادہ دھڑ بالکل بیکار اور شل ہوگیا، ٹانگیں توری کی طرح لٹکنے لگیں اور مگردولت کا پجاری ’’خاندان نبوت‘‘ اس عبرتناک حالت میں بھی حضرت صاحب کی زیارت کے نام پر نمائش کرکے چندہ اکٹھا کرتا رہا کہ دولت ہی تو اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور یہ سارا ناٹک اسی لیے رچایا گیا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے بارے میں جو روایات موجود ہیں قادیانی اس کی پرزور تردید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے ساتھ کبھی ایسا نہیں کرتا لیکن جب مرزا محمود احمد عذاب خداوندی کی پکڑ میں آیا تو پھر ابوالآٹا (ابوالعطاجالندھری جیسے ملائوں نے انہی روایات کو مرزا محمود کی بیماری کے لیے بطور دلیل پیش کرنا شروع کر دیا۔

اور جب 1965ء میں مرزا محمود احمد اپنی تمام مکاریوں اور عیاریوں کو ساتھ لے کر جہنم کی سب سے نچلی تہ کی جانب روانہ ہوا تو وہ مرزا ناصر احمد کو اپنا جانشین بنانے کی تمام پلاننگ کرچکا تھا اور قادیانی جماعت میں رائج نیم آزاد اور محدود طریق انتخاب کو منسوخ کرکے اس کی جگہ پوپ کی طرز پر اپنے لے پالک عمائدین (کارڈینیلز) کا ایک انتخابی کالج بھی بنا چکا تھا مگر اتنے وسیع انتظامات کے باوجود اس کا سوتیلا بھائی مرزا رفیع احمد اس کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا جس سے نمٹنے کے لیے مرزا ناصر احمد کے حقیقی بھائیوں اور حواریوں نے پہلے سے تیاریاں کر رکھی تھیں اور مرزا طاہر احمد جس کی اس سے پہلے مرزا رفیع احمد سے گاڑھی چھنتی تھی، وہ بھی مرزا رفیع احمد سے آنکھیں پھیر چکا تھا اور کمینگی اور مخبری میں اس حد تک آگے چلا گیا تھا کہ مرزا رفیع احمد کے صدر خدام الاحمدیہ ہونے کے زمانے میں جو طاہر کبڈی ٹورنامنٹ ہوتا تھا، اس کے بارے میں اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مرزا ناصر کو یہ رپورٹ بھیجی کہ یہ نام سابق صدر مرزا رفیع احمد کا تجویز کردہ ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو اس کو رکھا جائے ورنہ تبدیل کر دیا جائے۔ میں بھی اس زمانے میں خدام الاحمدیہ کی مرکزی مجلس کا ایک اہم رکن تھا، اس لیے یہ تحریر میں نے خود پڑھی اور یہ جان کر حیران رہ گیا کہ محلاتی سازشیں یہاں کس طرح ہوتی ہیں؟ اس مخبری کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بیٹی کا نکاح مرزا ناصر احمد کے بیٹے لقمان سے کرکے ’’عروج بالفروج‘‘ کے ذریعے اپنی ’’خلافت‘‘ پکی کرنے کی کوششیں بھی تیز کر دیں۔

                                                                                                                                                                                                            جاری ہے