Search By Category
تاریخ احمدیت کے گمشدہ اوراق کا ماسٹر پرنٹ حصہ دوم
شفیق مرزا لاہور
جب ڈرامہ بازی کرکے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ ثالث یا سالوس بنانے کا جعلی اعلان کیا گیا تو کسی کو اس کا یقین نہ آیا اور قادیانی عبادت گاہ (مسجد مبارک) میں اس قدر شور برپا ہوا کہ مرزا ناصر کو اپنی چگی داڑھی سمیت یہ اعلان کرنا پڑا کہ خاموش ہو جائیں لیکن ہنگامہ پھر بھی فرو نہ ہوا تو میر محمود احمد نے باآواز بلند حاضرین سے اپیل کی کہ یہ ’’خلیفہ المسیح کا پہلا حکم ہے خاموش ہو جائیں‘‘ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اندر خانے کیا کچھ ہوا ہوگا۔ یہ سارا منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خدا شاہد ہے کہ اس میں ایک ذرہ بھی مبالغہ نہیں کیا گیا۔ مرزا ناصر احمد اور مرزا طاہر احمد جس ماحول میں پلے بڑھے، اس میں ان کے شریف ہونے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔
مرزا ناصر احمد نے اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنسی بے راہ روی کی نت نئی راہیں کھولیں۔ بڑھاپے میں خلافت کی گدی سنبھالنے کے بعد اس نے اپنے بیٹے لقمان کی معشوقہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کی طالبہ طاہرہ خاں کو جس طرح اپنے حرم میں داخل کیا، اس سے ’’خاندان نبوت‘‘ کی پرانی روایت اس طرح تازہ ہوئی کہ مرزا ناصر احمد کو کشتے کھا کر اپنے عبرتناک انجام کی طرف جانا پڑا اور شدت بیماری سے ان کے سارے جسم پر پھوڑے نکل آئے اور چہرہ بھی اس سے نہ بچ سکا۔ ان ایام میں، میں نے لاہور کے ایک سکہ بند قادیانی عبدالعزیز بھٹی ایڈووکیٹ سے پوچھا: کہ یہ کیا ہوا تو اس نے فوراً کہا کہ اول تو حضرت صاحب کو اس عمر میں شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی اور اگر کر ہی لی تھی تو پھر کشتے نہیں کھانے چاہئیں تھے کیونکہ یہ سب کچھ کشتوں ہی کا کیا دھرا ہے۔ میں نے استفسار کیا جب آپ کو سب کچھ پتہ ہے کہ بڑھاپے میں ایسی شادیاں بگڑے ہوئے امراء کا چلن ہیں اور اگر دینداری کا لبادہ اوڑھ کر یہ حرکت کی جائے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ تو پھر آپ قادیانیت سے تائب کیوں نہیں ہو جاتے تو اس نے کہا کہ میرے والد نے سکھ مذہب کو چھوڑ کر ’’احمدیت‘‘ قبول کی تھی، اس وقت ان کے بڑھاپے کا عالم تھا اور 50سال کے بعد اب مجھے اصل حالات کا علم ہوا ہے تو میں کسی نئی سوسائٹی میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمیں زندگی میں سب سے قطع تعلق کرکے ایک مخصوص فضا میں رہنا سکھایا گیا ہے اس لیے اس ماحول سے الگ ہو کر زندگی بسر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ بچوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں جو سب سے بڑا پرابلم ہے۔ ’’احمدیت‘‘ چھوڑ دیں تو مسلمان بھی ہمیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہو پاتے ان حالات میں ہمیں تو اب یہیں جینا اور یہیں مرنا ہے یہی مسئلہ ایرمارشل (ر) ظفر چوہدری کا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسی جوہڑ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح ٹھیکیدار اسمٰعیل جہلمی کا بیٹا ظفر جو امریکہ میں مقیم ہے اُسے آج بھی خوب اچھی یاد ہے کہ بچپن میں ترکی کے مقام پر مرزا محمود نے ان کے ہاتھ میں رائفل پکڑا کر اور انہیں فائرنگ پر آمادہ کرکے ابوالہاشم خاں بنگالی کی بیٹی اور صلاح الدین ناصر بنگالی کی بہن کو کس طرح قتل خطاء کا ڈرامہ کرکے قتل کیا تھا تاکہ اپنے گناہ پر پردہ ڈالا جاسکے۔ سینکڑوں قادیانی خوب سمجھتے ہیں کہ ’’امن پسند جماعت احمدیہ‘‘ کیسی کیسی غنڈہ گردی کرتی ہے۔ جسٹس منیر مرحوم نے فساداتِ پنجاب 1953ء کی انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک سیاہ رنگ کی کار آتی تھی جو ختم نبوت کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوسوں پر گولیاں برساتے ہوئے گزر جاتی تھی۔ اس عہد میں بورسٹل جیل کے قادیانی سپرنٹنڈنٹ نذیر نے جو منڈی بہاء الدین کے ایک گائوں کے رہنے والے تھے، راقم کو یہ بتایا کہ مسلمانوں کو بھوننے کا یہ انتظام بھی ہم نے ہی کیا تھا اور ہم ساری کارروائی کرنے کے بعد اس کار کو واپس لاکر بورسٹل جیل کے اندر کھڑی کر دیتے تھے۔ سچ بولنا قادیانیوں کے لیے واقعی بہت مشکل ہے مگر انہیں بالآخر یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا کیونکہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ کی پیشگوئی ایسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے کہ ’’احمدیت‘‘ اپنی ہی جنم بھومی میں اجنبی ہو کر رہ گئی ہے اور بیرونی ممالک قادیانیوں کے پرزور پروپیگنڈے کے باوجود پاکستان میں ان کے غیر مسلم قرار دیئے جانے کے فیصلے پر خط تنسیخ نہیں کھینچا جاسکا۔ جنوبی افریقہ میں بھی انہیں دائرۂ اسلام سے خارج کیا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش میں انہیں غیر مسلموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اگر امت مسلمہ کو اس بات کا پورا ادراک ہوگیا کہ جہاد اور دہشت گردی کو آپس میں لازم و ملزوم قرار دینے کی امریکی کوششوں میں قادیانیوں کی جدوجہد کا کس قدر عمل دخل ہے اور وہ جہاد کے اسلامی احکامات کا استخفاف کرنے کی امریکی مساعی پر کس قدر خوش ہو رہے ہیں تو یہ سودا بھی انہیں بالآخر مہنگا ہی پڑے گا۔
قادیانی جب آلو اور گوبھی زیادہ کھا لیتے ہیں تو ان کی پیشگوئیوں میں جوش بھی کچھ زیادہ ہی پیدا ہو جاتا ہے لیکن جس طرح مرزا غلام احمد کی مصر میں احمدیوں کے ریت کے ذروں کی طرح ہونے کی پیش گوئی صحراء میں ہی بکھر کر رہ گئی، اسی طرح مرزا ناصر احمد اور مرزا طاہر احمد کی جانب سے ان کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچانے کی پیشگوئیاں بھی تیز دھوپ میں برف کی طرح پگھل کر مٹی میں ملتی جا رہی ہیں۔ مرزا غلام احمد دوسروں کی موت کی پیشگوئیاں کرنے کے کتنے شوقین تھے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کبھی طاعون سے مرنے والوں کو اپنے ’’معجزے‘‘ کا نتیجہ قرار دیا۔ کبھی کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کو اپنی صداقت کا نشان بتایا۔ کبھی شاہ کابل کی ریاست میں 85 ہزار افراد کے مرنے کی خبریں سنائیں۔ کبھی اپنے مخالفین کو عبرتناک موت کی وعید دی اور خاص طور پر مولانا ثناء اللہ امرتسری، عبداللہ آتھم اور مولانا سعداللہ لدھیانوی کو تو نام لے کر دشنام طرازی کی سان پر چڑھایا۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی جنہوں نے علمی محاذ پر مرزا غلام احمد کے براہین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں، ان کو گالیاں دینے کی اس نے نت نئی طرح ڈالی اور مہر علی کو مہر علٰی لکھتا اور پڑھتا رہا۔ انسان تو انسان شہر بھی اس کی گالیوں سے نہ بچ سکے۔جہلم کو گالیاں نکالتے ہوئے اس نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پہلے تین حرف جہل یعنی جہالت پر دلالت کرتے ہیں اور م روحانی و جسمانی موت کا پتہ دیتی ہے۔ جو شخص اپنے مخالفین کو جہاں سے نکلے ہوئے وہیں واپس چلے جائو اور ہندوئوں کے خدا کو ناف سے ایک بالشت 4انگل نیچے قرار دینے بلکہ اسے لکھنے سے بھی باز نہ آتا ہو اس کا انبیا تو بہت دور کی بات ہے کسی معمولی شریف آدمی سے بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن چونکہ ایک گروہ محض اپنے حلوے مانڈے کے لیے اسے نبی منوانے پر تُلا ہوا ہے، اس لیے دیکھیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تو پوری تاریخ میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ملتا جس نے اپنے مخالفین کو اس طرح گالیاں نکالی ہوں اور ان کے برے انجام کی کہانیاں سنا سنا کر اپنے دل کو تسکین دی ہو لیکن یہ ساری پیش گوئیاں غلط نکلیں اور مرزا غلام احمد خود عبرتناک موت کا شکار ہوا۔
مولوی نورالدین اعانتِ جرم کی پاداش میں گھوڑے سے گر کر فوت ہوا اور خود مرزا محمود احمد نے اس پر اپنے باپ کا الہام فٹ کر دیا کہ اس کی ’’استقامت میں فرق آگیا۔‘‘ جبکہ مرزا محمود اس عبرتناک طریقے سے مرا کہ وہ پاگلوں کی طرح سر مارتا تھا اور قادیان واپس جانے کی ضد کرتا تھا اور گدی نشینوں کا ٹولہ مریدوں کو صرف یہ بتاتا تھا کہ ’’حضور‘‘ مقامات مقدسہ کے ذکر پر آبدیدہ ہو جاتے اور اصرار کرتے ہیں کہ انہیں ان کی جنم بھومی میں واپس لے جایا جائے لیکن رہیں دل کی دل میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا۔ قاضی اکمل ایسی خوفناک بواسیر سے مرا کہ وہ بستر پر ہی لیٹا رہتا تھا اور ہل تک نہیں سکتا تھا۔ مرزا محمود کا سالا ولی اللہ شاہ ناظر امورِ عامہ بھی فالج سے لنگڑا ہو کر چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا اور سالہاسال تک اسی حالت میں رہا ۔مرزا ناصر احمد کی موت کا احوال کسی قدر تفصیل سے آچکا ہے مرزا طاہر بھی بدترین موت کی گرفت میں آکر جلاوطنی کی موت مرا اور بھنڈراں والا جتنی بھی جرأت نہ دکھاسکا۔ مرزا طاہر احمد کی والدہ مریم آتشک سے جس المناک طریقے سے مری، اس کی تفصیل میری کتاب شہر سدوم میں موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ پڑھی گئی ہے کہ جہاد کی مخالفت اور انگریز کی شان میں مرزا غلام احمد کی پچاس الماریوں پر محیط کتابیں اس کے سامنے ہیچ ہو کر رہ گئی ہیں اور خود قادیانی تبرک کے طور پر اسے چھپا کر رکھتے اور پڑھتے ہیں۔
نوبل پرائز یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بہن صلاح الدین بنگالی کی بہن روزی کی سہیلی تھی، اس لیے ناممکن ہے کہ انہیں اس خاندان کے جنسی عصیان کی کوئی خبر نہ ہو، اس لیے وہ کتمان حق کی پاداش میں علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کے باوجود اپنی یاداشت کھو بیٹھا اور سالہاسال تک اس حالت میں رہا کہ ایک سیکنڈ کے لیے کھڑے ہوتا تو نیچے گر جاتا۔ چوہدری ظفراللہ خاں اپنی عمر کا آخری حصہ نہایت اذیت ناک طریقے سے گزار کر مرا حالانکہ اسے مرزا محمود کی بدمعاشیوں کا ذاتی علم تھا اور وہ خود بھی بہت بڑا ’’مدبر‘‘ تھا اور اس کی جنسی انارکی اس مقام کو پہنچی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ لاہور ریلوے سٹیشن پر وہ معروف صحافی بننے والے عبداللہ ملک کو عہد جوانی میں راجہ غضنفر علی کے ساتھ جانے سے روکنے کے لیے اس سے باقاعدہ گتھم گتھا ہوگیا۔ ان حالات میں خود قادیانی یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی قادیانی فالج یا دوسری عبرتناک بیماری سے نہیں مرتا تو وہ قادیانی ہی نہیں۔ کوئی شخص خواہ وہ ہندو، یہودی، عیسائی، ملیچھ یا قادیانی کوئی بھی ہو اس کی بیماری کو ہدف طعن بنانا یا اس کی موت پر کسی قسم کی مسرت کا اظہار کرنا نہایت نازیبا ہے لیکن چونکہ قادیانیوں کے متنبی اعظم سے لے کر ان کے نام نہاد گدی نشینوں تک نے یہ وتیرہ بنالیا ہے کہ وہ ہر قابل ذکر مسلمان لیڈر اور عالم کی موت پر جشن مناتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کی موت پر تو انہوں نے باقاعدہ انبساط کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائیاں تک تقسیم کیں اس لیے ہم نے نہایت افسوس کے ساتھ یہ اجمالی سا تذکرہ کیا ہے کہ قادیانی امت کے اکابر کس طرح مقابر کی تاریکیوں میں ڈوبتے ہیں۔
چند روز پیشتر ایک قادیانی نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ کچھ وقت دیں آپ سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔ میں نے کہا کسی وقت تشریف لے آئیں چنانچہ وہ اگلے ہی روز آپہنچے اور سلسلہ کلام شروع کرتے ہی کہا کہ ’’خلیفہ ثانی‘‘ کی جنسی بے اعتدالیاں تو واقعی حد سے بڑھی ہوئی تھیں۔ آپ ان کے بارے میں ضرور لکھیں لیکن مرزا غلام احمد کے متعلق کوئی بات نہ کریں میں نے کہا اس نے تاج برطانیہ کے سائے تلے جعلی نبوت کا دعویٰ کرکے جہاد کو منسوخ کرکے اور تمام مسلمانوں کو غلیظ ترین گالیاں دے کر جس طرح امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورتحال میں اسے کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ کہنے لگے سوچ لیں ہم آپ کو اتنے پیسے دے سکتے ہیں جو جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوہ اور ختم نبوت والے آپ کو نہیں دے سکتے، میں نے جواب دیا کہ میرا ان جماعتوں سے فکری اتحاد ہے۔ اور میں نے آج تک ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا تو ان میں سے ایک صاحب نے کہا کہ اگرآپ باز نہ آئے تو ہم آپ کو ایسے طریقے سے بدنام کرنے کی کوشش کریں گے کہ کسی کو شبہ بھی نہیں ہوگا تو میں نے جواباً کہا آپ جو چاہیں کرلیں الزامات اگر جھوٹے ہوں تو سچ کی ایک کرن ہی ان کی پیدا کردہ تاریکی کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے آپ جو چاہیں کرلیں لیکن میرے تین سوالات بھی اپنے بڑوں کے سامنے پیش ضرور کر دیں:
-1 نذیر ڈرائیور اور مرزا اظہر کی شکلیں آپس میں ہوبہو کیو ملتی ہیں؟
-2 خلیفہ صلاح الدین کے ایک بیٹے کی شکل آپ کے ایک خلیفے کی تصویر کا عکس کیوں دکھائی دیتی ہے۔
-3 مرزا محمود احمد کی بیٹی امۃ القیوم عرف قمی اور ان کی بیوی بشریٰ المعروف مہر آپا کا رحم کیوں غائب ہے۔ الٹرا سائونڈ کروالیں اگر ہماری بات غلط نکلے تو شہر سدوم کی تمام کاپیاں تلف کر دوں گا جس پر وہ اٹھ کر باہر نکلنے لگے۔ تو ایک نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ آپ اکیلے یہ جنگ کب تک لڑیں گے میں نے کہا
’’ میں ختم نبوت کا ایسا سپاہی ہوں جس کے ہاتھ میں پرانی توڑے دار بندوق ہے لیکن میں آخری گولی تک اپنے مورچے میں ڈٹا رہوں گا‘‘۔
Recent Comments