Language:

ٹیکہ کے مقابلہ میں الہام اور ایام طاعون میں احتیاط ۔’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال‘‘ کے الہام سے مرزا انکاری، بیٹا اقراری

ٹیکہ کے مقابلہ میں الہام اور ایام طاعون میں احتیاط

سوال نمبر:80…   مرزاقادیانی نے اپنے الہام اور ٹیکہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہمیں تو اپنے الہام پر کامل یقین ہے کہ جب افسران گورنمنٹ ہمیں ٹیکہ لگانے آئیں گے تو ہم اپنا الہام ہی پیش کر دیں گے۔ میرے نزدیک تو اس الہام کی موجودگی میں ٹیکہ لگانا گناہ ہے۔ کیونکہ اس طرح توثابت ہوگا کہ ہمارا ایمان اور بھروسہ ٹیکہ پر ہے۔ اﷲتعالیٰ کے کرم اور وعدہ پرنہیں۔‘‘                           (ملفوظات مرزا حصہ چہارم، پنجم ص256)

مرزاقادیانی کی اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر وہ الہام حفاظت از طاعون کی موجودگی میں ٹیکہ وغیرہ دنیاوی اور مادی احتیاط سے کام لیں گے تو الہام الٰہی سے بے یقین ثابت ہوں گے۔ ناظرین مندرجہ عبارت کو ذہن نشین رکھئے اور صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے کا مندرجہ ذیل بیان پڑھئے کہ: ’’طاعون کے ایام میں حضرت مسیح موعود فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جاکر ڈالتے تھے۔ نیز گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے۔ تاکہ ضرر رساں جراثیم مر جاویں اور آپ نے بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی۔ جس میں کوئلے اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور تمام دروازے بند کر دئیے جاتے تھے۔ اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد کمرہ کھولا جاتا تھا تو کمرہ اندر بھٹی کی طرح تپتا ہوتا تھا۔‘‘

(سیرۃ المہدی ج2 ص59، بروایت نمبر379)

اور سنئے! ’’حضور کو بٹیر کا گوشت بہت پسند تھا۔ مگر جب سے پنجاب میں طاعون کا زور ہوا بٹیر کھانا چھوڑ دیا۔ بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعونی مادہ ہوتا ہے۔‘‘                                                (سیرت المہدی ج2 ص132، بروایت نمبر444)

اور سنئے! ’’وبائی ایام میں حضرت صاحب اتنی احتیاط فرماتے کہ اگر کسی خط کو جووبا والے شہر سے آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔‘‘  (الفضل قادیان مورخہ 28؍مئی 1937ء)

مرزائیو! اگر ٹیکہ لگانے سے الہام الٰہی پر ایمان نہیں رہتا تو یہ احتیاطیں کرنے والا کون ہوا؟ فرق صرف یہ ہے کہ ٹیکہ لگوانے سے خطرہ تھا کہ لوگ اعتراض کریں گے اور یہ ا اندرون خانہ ہوتی تھیں۔ جہاں سب کے سب جی حضورئے ہوتے تھے۔ کیا سچا انسان اسی شان کا مالک ہوتا ہے؟

’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال‘‘ کے الہام سے مرزا انکاری، بیٹا اقراری

سوال نمبر:81…   انبیاء علیہم السلام کو سب سے پہلے اپنے الہام پر ایمان ہوتا ہے اور وہ ’’بلغ ما انزل‘‘ کے تحت مامور ہوتے ہیں کہ خدا کا لہام بلاکم وکاست لوگوں تک پہنچا دیں۔ خواہ انہیں اس جرم کی پاداش میں بھڑکتی ہوئی آگ یا تختہ دار سے ہمکنار ہونا پڑے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی اس مقام پر بھی بالکل فیل نظر آتے ہیں۔ 1860ء کے زمانہ میں ایک دفعہ انہیں الہام ہوا تھا کہ سلطنت برطانیہ ۷،۸سال تک کمزور ہو جائے گی۔ الہام کے اصل الفاظ یہ تھے کہ: ’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعدازاں ایام ضعف واختلال‘‘ ان کے کسی مرید نے یہ الہام مولانا محمدحسین بٹالوی کو بتادیا اور انہوں نے اپنے اخبار ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں شائع کر دیا۔ پس پھر کیا تھا۔ مرزاقادیانی کو فکر پڑ گئی کہ انگریز بہادر ناراض ہوکر خودکاشتہ پودا کی جڑ ہی نہ اکھڑوا دے۔ فوراً ایک رسالہ ’’کشف الغطائ‘‘ لکھ مارا۔ جس کے ٹائٹل پر بحروف جلی لکھا کہ: ’’یہ مؤلف تاج عزت جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کا واسطہ ڈال کر بخدمت گورنمنٹ عالیہ انگلشیہ کے اعلیٰ افسروں اور معزز حکام سے باادب گذارش کرتا ہے کہ براہ غریب پروری وکرم گستری اس رسالہ کو اوّل سے آخر تک پڑھا جائے یا سنا جائے۔‘‘

            پھر ’’صفحہ ب‘‘ پر الہام مذکورہ سے انکار کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اپنی عاجزانہ عرض کو گورنمنٹ پر ظاہر کروں کہ مجھے اس شخص کے ان خلاف واقعہ کلمات سے کس قدر صدمہ پہنچا ہے اور کیسے درد رساں زخم لگے ہیں۔ افسوس کہ اس شخص نے عمداً اور دانستہ گورنمنٹ کی خدمت میں میری نسبت نہایت ظلم سے بھرا ہوا جھوٹ بولا ہے اور میری تمام خدمات کو برباد کرنا چاہا ہے۔ خدا جھوٹے کو تباہ کرے۔‘‘

            گویا مرزاقادیانی نے خوب زوروشور سے الہام مذکورہ کا انکار کر دیا۔ چونکہ مولانا بٹالوی کے پاس مرزاقادیانی کی کوئی تحریر متعلقہ الہام نہیں تھی۔ اس لئے انہیں خاموش ہونا پڑا اور عرصہ 25سال تک اس الہام پر انکار کا پردہ پڑا رہا۔ مگر ’’نہاں ماند کجا رازے کزد سازند محفلہا‘‘ کہی ہوئی بات کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو ہی جایا کرتی ہے۔ مذکورہ الہام کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ مرزاقادیانی نے انکار کیا اور دعا کی کہ: ’’جھوٹے کو خدا تباہ کرے۔‘‘ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے نے (سیرۃ المہدی ج1ص75، روایت نمبر96) پر تسلیم کر لیا کہ حضرت صاحب کو واقعی یہ الہام ہوا تھا۔اب ناظرین یہ بتائیں کہ مرزاقادیانی کو کیا کہیں؟۔ مرزائیو! یہ کیا بات ہے؟ کہ باپ اپنے الہام سے منکر ہے اور صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ الہام واقعی ہوا تھا۔ ذرا سوچ سمجھ کر جواب دینا۔