Language:

توہین رسالت کے مقدمہ کا تاریخی پس منظر – (محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ)

محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

مسلمان اپنے آقا و مولا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام و ناموس پر مرمٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔برصغیر پاک و ہند میں برطانوی دورِ استعمار سے قبل‘ حتی کہ مغل شہنشاہ اکبر کے سیکولر دور میں بھی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزائے موت دی گئی۔ لیکن جب اس ملک پر سازشوں کے ذریعہ انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہو گیا تو انہوں نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قانون کو یکسر موقوف کر دیا۔ پھر انگریز حکومت ہی کی شہ پر جب ہندوئوں‘ آریہ سماجیوں اور مہاسبھائیوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ گرامی پر حملے کرنے شروع کر دیئے تو مسلمانوں نے شاتمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرکے‘ اقرار جرم کرتے ہوئے دارو رسن کی روایت کو از سر نو زندہ کیا۔مسلمانوں کے احتجاج اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی تحریک پر اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے 1927ء میں ایک معمولی سی دفعہ 295 اے کا تعزیرات ہند میں اضافہ کیا‘ جس کی رو سے توہین مذہب کے جرم کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی‘ لیکن اس سے مسلمانوں کی اشک شوئی نہ ہو سکی۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ یہاں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جرم کی شرعی سزا‘ سزائے موت کا قانون پھر سے بحال ہو جائے گا‘ لیکن کسی بھی مقننہ یا حکومت کو اس بارے میں پیش رفت کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی‘ اسی اثناء میں اسلام دشمن قوتوں نے پاکستان کی اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیے سازشوں کا جال سارے ملک میں پھیلا دیا۔ زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ یہاں کے نوجوانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لیے لادینی لٹریچر بھی پھیلانا شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک کٹر کمیونسٹ مشتاق راج کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جس کی خدمات روس کی حکومت نے حاصل کیں۔ مشتاق راج نے 1983ء میں Heavenly Communism (آفاقی اشتمالیت) نامی ایک کتاب لکھی جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں مفت تقسیم کی گئی۔ یہ کتاب راقم الحروف تک بھی پہنچائی گئی۔ میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کر دیا‘ جیسے جیسے کتاب کو پڑھتا گیا‘ میری قوتِ برداشت جواب دیتی چلی گئی۔ مجھ پر غم و غصہ کی جو کیفیت طاری ہوئی‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ تمسخر کیا گیا تھا‘ بلکہ مذاہب اور ادیان کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔ دینی پیشوائوں کو ’’مذہبی شیطان‘‘ کہا گیا‘ انبیائے کرام علیہ السلام پر نہایت گھٹیا اور سوقیانہ حملے کیے گئے اور انتہا یہ ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کی جسارت کی گئی۔ میں نے نہایت صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس (پاکستان زون)world association of muslim jurist کا اجلاس طلب کیا‘ جس میں پاکستان کے نامور علمائے دین کے علاوہ بیرون ملک سے عالم اسلام کے دو ممتاز سکالر ڈاکٹر ربیع المدخلیDoc rabee al madkhali اور پروفیسر سعید صالح Professor saeed salehنے بھی شرکت کی‘ سب علماء کا متفقہ فتویٰ تھاکہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم واجب القتل ہے‘ لہذا حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ناپاک کتاب کو فوری طور پر ضبط کر لے اور بغیر کسی تاخیر کے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون بنا کر اسے نافذ العمل کر دیا جائے‘ تاکہ آئندہ کسی بدبخت کو اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات نہ ہو سکے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل نے بھی راقم کی تحریک پر مشتاق راج کو بار کی رکنیت سے خارج کر دیا ۔ اہل لاہور کو جب اس کتاب کی اشاعت کا علم ہوا تو ان کے جذبات مشتعل ہو گئے اور حکومت نے امن و امان کی صورت حال اور بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے پیش نظر اسے زیر دفعہ 295 اے گرفتار کر لیا‘ کیونکہ تعزیراتِ پاکستان میں اس وقت تک توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ ملک عزیز کے تمام مکاتب فکر کے علمائ‘ وکلائ‘ بار ایسوسی ایشنز اور دینی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔ پاکستان کے قومی اخبارات نے بھی اس کی تائید کی اور اس کی حمایت میں ادارئیے لکھے‘ بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامیانِ پاکستان کے اس مطالبہ کا نوٹس لیا اور شیخ غیاث محمد صاحب‘ سابق اٹارنی جنرل کی تحریک پر حکومت سے سفارش کی کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ارتداد کی سزا‘ سزائے موت مقرر کی جائے۔ اس کے باوجود حکومت وقت نے اس نازک مسئلہ کو مستحق توجہ نہیں سمجھا‘ لہذا راقم الحروف نے فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور تمام صوبوں کے گورنروں کے خلاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 203 ڈی کے تحت 1984ء میں اپنے ساتھ تمام مکاتب فکر کے علمائ‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان‘ سابق وزرائے قانون‘ سابق اٹارنی جنرل‘ سابق ایڈووکیٹ جنرل‘ لاہور ہائی کورٹ بار اور دیگر بار کونسلوں کے صدر صاحبان سمیت ایک سو پندرہ شہریوں کو شامل کرکے شریعت پٹیشن نمبر 1/ ایل 1984ء دائر کی۔ مقدمہ کی سماعت کا آغازراقم الحروف کی بحث سے شروع ہوا‘ عدالت نے عوام الناس کے نام نوٹس جاری کر دیئے تھے۔ کمرۂ عدالت اور اس کے باہر ہر روز عوام کا ہجوم اس مقدمہ کی کارروائی کی سماعت کے لیے موجود ہوتا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عجیب و غریب واقعات پیش آئے‘ جن میں دو بڑے دلچسپ اور قابل ذکر ہیں۔ اس پٹیشن میں سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس چوہدری محمد صدیق بحیثیت فریق اول ہمارے ساتھ شامل تھے‘ جبکہ دوسری طرف سے ان کے صاحبزادے جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو اس وقت ایڈووکیٹ جنرل تھے‘ (موسوف آج کل سپریم کورٹ میں جسٹس ہیں) پیش ہوئے۔ میں نے عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اس تاریخی مقدمہ میں باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے شریعت پٹیشن کی مکمل طور پر حمایت کی اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی اس پٹیشن کی تائید میں دلائل پیش کیے اور عدالت سے درخواست کی کہ اس درخواست کو منظور کر لیا جائے۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

 اسی اثناء میں ایک اور سنگین واقعہ رونما ہوا‘ ماہ جولائی 1984ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر(asma jahangir) نے‘ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے جو سامعین اور امت مسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے‘ جس پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہو گیا‘ جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ورلڈ ایسوسی ایشن نے اپنے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے تمام سربرآوردہ علماء اور وکلا کی جانب سے اس کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سزائے موت کا قانون منظور کرے اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ شریعت پٹیشن پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔ اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون مرحومہ آپا نثار فاطمہؒ نے اس قابل اعتراض تقریر کا قومی اسمبلی میں سختی سے نوٹس لیا اور پھر راقم الحروف کے مشورے سے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ‘ 295 سی کابل جس کی رُو سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تجویز کی گئی‘ پیش کیا گیا۔ جب یہ بل اسمبلی میں جنت مکانی آپا نثار فاطمہ مرحومہ نے پیش کیا تو مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے پیش نظر انہیں اس کی مخالفت کی جرأت نہ ہو سکی‘ البتہ وزارتِ قانون کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کر دی گئی کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت یا عمر قید ہو گی‘ اس طرح دفعہ 295 سی کا تعزیراتِ پاکستان میں اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن‘ چونکہ اس دفعہ سے راقم الحروف‘ مرحومہ آپا نثار فاطمہ‘ علمائے کرام‘ وکلاء اور مسلمان عوام مطمئن نہیں تھے‘ اس لیے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں 295 سی کو راقم الحروف نے مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کی جانب سے اس بناء پر چیلنج کر دیا کہ توہین رسالت کی سزا بطور حد سزائے موت مقرر ہے اور حد کی سزا میں حکومت ہی نہیں‘ بلکہ پوری امت مسلمہ کو بھی سوئی کی نوک کے برابر کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت یکم اپریل 1987ء کو شروع ہوئی‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھی معاونت کی دعوت دی گئی۔ بعض علماء کا خیال تھا کہ یہ قابل معافی جرم ہے اور بعض نے یہ بھی کہا کہ حاکم وقت سزائے موت سے کم تر سزا بھی دینے کا مجاز ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فل بنچ جو جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس‘ جناب جسٹس عبدالکریم خاں کندی‘ جناب جسٹس عبدالرزاق تھیم پر مشتمل تھا‘ کے سامنے ہوئی۔ منجملہ دیگر علمائے کرام کے مولانا مفتی غلام سرور قادری‘ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف اور جناب سید ریاض الحسن نوری قابل ذکر ہیں۔ مولانا حافظ یوسف صلاح الدین جو جماعت اہل حدیث کے محقق عالم ہیں‘ کا پہلی شریعت پٹیشن میں موقف تھا کہ شاتم رسول کا جرم ناقابل معافی جرم ہے‘ لیکن بعد میں انہوں نے دوسرے یعنی موجودہ مقدمہ کی پٹیشن کے دوران بحث کرتے ہوئے اپنے پہلے موقف سے رجوع کرتے ہوئے جرم مذکورہ کو قابل معافی بتلایا‘ جبکہ مولانا مفتی غلام سرور قادری شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوارتداد کی بناء پر واجب القتل تو سمجھتے تھے‘ لیکن اسے قابل معافی جرم بھی قرار دیتے تھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل میاں عبدالستار نجم پیش ہوئے۔ وہ بھی اس جرم کو قابل معافی جرم قرار دیتے تھے اور اس کو وہ منشائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے‘ اس کے برعکس حکومت پنجاب کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جناب نذیر احمد غازی اور جناب جلال الدین خلد‘ حکومت سرحد کی جانب سے میاں محمد اجمل جو بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فاضل جج مقرر ہوئے‘ سندھ اور بلوچستان کی طرف سے وہاں کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز نے ہمارے موقف کی مکمل تائید اور حمایت کی۔ ان کے علاوہ جناب ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی سزا کے اسلامی احکام سے منافی ہونے کے بارے میں اپنے دلائل بھی پیش کیے۔ سندھ کی حکومت نے بھی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تسلیم کی‘ لیکن عمر قید کی سزا کی مخالفت نہیں کی۔

توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقدمہ میں علمائے کرام‘ صوبوں کے اسسٹنٹ اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز اور دیگر وکلاء صاحبان کے علاوہ عاجز کو رفیق محترم جناب ڈاکٹر ظفر علی راجہ ایڈووکیٹ کی شب و روز معاونت حاصل رہی ہے‘ جس میں ان کا خلوص اور ملی حمیت کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔ بالآخر وہ ساعت سعید بھی آ گئی‘ جب فیڈرل شریعت کورٹ نے متفقہ طور پر‘ اس گدائے شہ عرب و عجم کی پٹیشن منظور کرتے ہوئے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی متبادل سزا عمر قید‘ کو غیر اسلامی اور قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا اور حکومت پاکستان کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ عمر قید کی سزا کو دفعہ 295 سی سے حذف کیا جائے‘جس کے لیے 30 اپریل 1991ء کی مہلت حکومت کو دی گئی۔ اس مدت کے اختتام پر عمر قید کی سزا حکم عدالت کی رو سے خود بخود حذف ہو کر غیر مئوثر ہو گئی۔ اس فیصلہ کی بدولت حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی سنت تازہ ہوئی‘ جس پر تمام مسلمانوں کے ایمان کا دارومدار ہے‘ جس کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب گل محمد خاں اور ان کے تمام رفقائے کار جج حضرات پوری امت مسلمہ کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اس فیصلہ کے بعد‘ پھر ایک عجیب مرحلہ پیش آیا۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جو نفاذِ اسلام اور قرآن و سنت کے قانون کی بالا دستی کا منشور دے کر برسراقتدار آئی تھی‘ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی اور راقم الحروف کے نام وفاقی حکومت کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ چوہدری اختر علی کا نوٹس بھی موصول ہو گیا‘ جس پر راقم نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ حکومت اس اپیل کو فوری طور پر سپریم کورٹ سے واپس لے ‘ ورنہ مسلمانوں کے جذبات اس حکومت کے خلاف بھی مشتعل ہو جائیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اس انتباہ کا بروقت نوٹس لیا اور برسرعام اعلان کیا کہ اس اپیل کا انہیں قطعی علم نہیں تھا‘ ورنہ ایسی غلطی کبھی سرزد نہ ہوتی اور اس جرم کی سزائے موت بھی کم تر سزا ہے‘ اس لیے یہ اپیل سپریم کورٹ سے فوری طور پر واپس لے لی گئی‘ جس کے بعد بفضل تعالیٰ اب پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بطور حد سزائے موت حتمی اور قطعی طور پر جاری ہو چکی ہے۔ اس قانون کی بدولت اب کوئی شخص شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے عدالت سے رجوع کرے گا۔ جہاں فریقین سے شہادت لی جائے گی‘ ملزم کو صفائی کا موقع دیا جائے گا‘ اس کے بعد اگر جرم ثابت ہو تو پھر مجرم کو سزا دی جائے گی۔حق سبحانہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو ہم سب کے لیے وسیلۂ نجات بنائے اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین

لاہور ہائیکورٹ نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ’’کوئی بھی شخص، کجا ایک مسلمان، ممکنہ طور پر اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ من مانی کا سد باب کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر تعزیرات پاکستان کی دفعہ295-C کے احکامات کی تنسیخ کردی جائے یا انہیں دستور سے متصادم قرار دے دیا جائے تو معاشرے میں ملزموں کو جائے واردات پر ہم ختم کرنے کا پرانا دستور بحال ہوجائے گا‘‘(پی ایل ڈی 1994 لاہور485)۔